Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
اَفَحَسِبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنۡ يَّتَّخِذُوۡا عِبَادِىۡ مِنۡ دُوۡنِىۡۤ اَوۡلِيَآءَ‌ ؕ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا جَهَـنَّمَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ نُزُلًا‏ ﴿102﴾
کیا کافر یہ خیال کئے بیٹھے ہیں؟ کہ میرے سوا وہ میرے بندوں کو اپنا حمایتی بنالیں گے؟ ( سنو ) ہم نے تو ان کفار کی مہمانی کے لئے جہنم کو تیار کر رکھا ہے ۔
افحسب الذين كفروا ان يتخذوا عبادي من دوني اولياء انا اعتدنا جهنم للكفرين نزلا
Then do those who disbelieve think that they can take My servants instead of Me as allies? Indeed, We have prepared Hell for the disbelievers as a lodging.
Kiya kafir yeh khayal kiye bethay hain? Kay meray siwa woh meray bandon ko apna himayati bana len gay? ( Suno ) hum ney to inn kuffaar ki mehmani kay liye jahannum ko tayyar ker rakha hai.
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، کیا وہ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے ہی بندوں کو اپنا رکھوالا بنا لیں گے؟ یقین رکھو کہ ہم نے ایسے کافروں کی مہمانی کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔
تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو ( ف۲۱۳ ) میرے سوا حمایتی بنالیں گے ( ف۲۱٤ ) بیشک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے ،
تو کیا 74 یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ 75 ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے ۔
کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کار ساز بنا لیں گے ، بیشک ہم نے کافروں کے لئے جہنم کی میزبانی کو تیار کر رکھا ہے
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :74 یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے ، اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورۃ کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے ۔ سورۃ کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کو شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے ۔ مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے ، بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی ، جنہوں نے یہ دعوت قبول کرلی تھی ، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے ۔ اور پھر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورہ سے یہاں تک چلی آ رہی ہے ، اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی ، جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا ۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا ۔ اب تقریر ختم کر تے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جارہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع 4 سے 8 تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :75 یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روشن ان کے لیے نافع ہوگی ؟