Surah

Information

Surah # 18 | Verses: 110 | Ruku: 12 | Sajdah: 0 | Chronological # 69 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 28, 83-101, from Madina
قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا ؕ‏ ﴿103﴾
کہہ دیجئے کہ اگر ( تم کہو تو ) میں تمہیں بتادوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟
قل هل ننبكم بالاخسرين اعمالا
Say, [O Muhammad], "Shall we [believers] inform you of the greatest losers as to [their] deeds?
Keh dijiye kay agar ( tum kaho to ) mein tumhen bata doon kay ba-aetbaar aemaal sab say ziyada khasaray mein kaun hain?
کہہ دو کہ : کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں؟
تم فرماؤ کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کن کے ہیں ( ف۲۱۵ )
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟
فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں
عبادت واطاعت کا طریقہ ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہودونصاری ہیں ۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں ۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا ۔ پس حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود ونصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے ، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جوطریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کر لیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکے میں یہود ونصاری مخاطب نہ تھے ۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا ۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں ۔ جیسے سورہ غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت وعبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا 23؀ ) 25- الفرقان:23 ) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بیکار ردی کر دیا ۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں ، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہوگئے ۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور مانے ہی نہیں ۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا ۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کر لو ( فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥؁ ) 18- الكهف:105 ) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوگا ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہوگا ۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا ، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا ۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا ۔