Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ قِتَالٍ فِيۡهِ‌ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِيۡهِ كَبِيۡرٌ ‌ؕ وَصَدٌّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَ کُفۡرٌ ۢ بِهٖ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَاِخۡرَاجُ اَهۡلِهٖ مِنۡهُ اَكۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰهِ ‌‌ۚ وَالۡفِتۡنَةُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ‌ؕ وَلَا يَزَالُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ حَتّٰى يَرُدُّوۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ‌ؕ وَمَنۡ يَّرۡتَدِدۡ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَيَمُتۡ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓٮِٕكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ‌‌ۚ وَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿217﴾
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا بڑاگناہ ہے ، لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا ، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے یہ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں ، ان کے اعمال دنیاوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے ۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے ۔
يسلونك عن الشهر الحرام قتال فيه قل قتال فيه كبير و صد عن سبيل الله و كفر به و المسجد الحرام و اخراج اهله منه اكبر عند الله و الفتنة اكبر من القتل و لا يزالون يقاتلونكم حتى يردوكم عن دينكم ان استطاعوا و من يرتدد منكم عن دينه فيمت و هو كافر فاولىك حبطت اعمالهم في الدنيا و الاخرة و اولىك اصحب النار هم فيها خلدون
They ask you about the sacred month - about fighting therein. Say, "Fighting therein is great [sin], but averting [people] from the way of Allah and disbelief in Him and [preventing access to] al-Masjid al-Haram and the expulsion of its people therefrom are greater [evil] in the sight of Allah . And fitnah is greater than killing." And they will continue to fight you until they turn you back from your religion if they are able. And whoever of you reverts from his religion [to disbelief] and dies while he is a disbeliever - for those, their deeds have become worthless in this world and the Hereafter, and those are the companions of the Fire, they will abide therein eternally.
Log aap say hurmat walay maheenon mein laraee ki babat sawal kertay hain aap keh dijiye kay inn mein laraee kerna bara gunah hai lekin Allah ki raah say rokna uss kay sath kufur kerna aur masjid-e-haram say rokna aur wahan kay rehney walon ko wahan say nikalna Allah kay nazdeek uss say bhi bara gunah hai yeh fitna qatal say bhi bara gunah hai yeh log tum say laraee bhiraee kertay hi rahen gay yahan tak kay agar hosakay to tumhen tumharay deen say murtid ker den aur tum mein say jo log apney deen say palat jayen aur issi kufur ki halat mein maren unn kay aemaal-e-duyawi aur ukhrawi sab ghaarat hojayen gay. Yeh log jahannumi hongay aur hamesha hamesha jahannum mein hi rahen gay.
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ ( ١٤١ ) آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے ، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا ، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا ، مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے ، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے ، اور یہ ( کافر ) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے ، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارا دین چھوڑنے پر آمادہ کردیں ، اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دے ، اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے ، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں ، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔
تم سے پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنے کا حکم ( ف٤۱۹ ) تم فرماؤ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے ( ف٤۲۰ ) اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنا ، اور اس کے بسنے والوں کو نکال دینا ( ف٤۲۱ ) اللہ کے نزدیک یہ گناہ اس سے بھی بڑے ہیں اور ان کا فساد ( ف٤۲۲ ) قتل سے سخت تر ہے ( ف٤۲۳ ) اور ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر بن پڑے ( ف۳۲٤ ) اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں ( ف٤۲۵ ) اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ،
لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدیدتر ہے ۔ 232 وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گےحتٰی کہ اگر ان کا بس چلے ، تو تمہیں اس دین سے پھیر لے جائیں ۔ ﴿اور یہ خوب سمجھ لو کہ ﴾ تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے ۔ 233
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں ، فرما دیں: اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اﷲ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام ( خانہ کعبہ ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اﷲ کے نزدیک ( اس سے بھی ) بڑا گناہ ہے ، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے اور ( یہ کافر ) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ( وہ اتنی ) طاقت پاسکیں ، اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں ( سب ) اعمال برباد ہو جائیں گے ، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :232 یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے ۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا ( جو مکے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے ۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو ان کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے ۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی ، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب ( یعنی ماہ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں ۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہودیوں اور منافقین مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہ حرام تک میں خونریزی سے نہیں چوکتے ۔ انہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہ حرام میں لڑنا بڑی بری حرکت ہے ، مگر اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے ، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبور ہو گئے ، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجد حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا ۔ حالانکہ مسجد حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اس کی زیارت سے روکا گیا ہو ۔ اب جن ظالموں کا نامہ اعمال ان کرتوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں ، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مال غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی ۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ لینے سے بھی انکار فر ما دیا تھا ، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لوٹ ناجائز ہے ۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا ، جس نے انہیں اس پر داد دی ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :233 مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ ، جن کے ذہن پر نیکی اور صلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلط تھا ، کفار مکہ اور یہودیوں کے مذکورہ بالا اعتراضات سے متاثر ہوگئے تھے ۔ اس آیت میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ امید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی ۔ ان کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں ۔ وہ تو دراصل کیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں ۔ انہیں یہ بات کھل رہی ہے کہ تم اس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو ۔ پس جب تک وہ اپنے کفر پر اڑے ہوئے ہیں اور تم اس دین پر قائم ہو ، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی ۔ اور ایسے دشمنوں کو تم معمولی دشمن بھی نہ سمجھو ۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے ، وہ کمتر درجے کا دشمن ہے ۔ مگر جو تمہیں دین حق سے پھیرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارا بدترین دشمن ہے ۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دنیا ہی خراب کرتا ہے ، لیکن یہ دوسرا تمہیں آخرت کے ابدی عذاب میں دھکیل دینے پر تلا ہوا ہے ۔
حضرمی کا قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا جب وہ جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا چنانچہ حضرت عبداللہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لئے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہو گئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کر دیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ کی یہ جماعت وہاں واپس ہوئی اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ اس جماعت میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت ابو حذیفہ بن عبتہ بن ربیعہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عتبہ بن غزوان سلمی ، حضرت سہیل بن بیضاء ، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبداللہ یربوعی رضی اللہ عنہم تھے ۔ بطن نخلہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن جحش نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ رضی اللہ عنہما تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہو گیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ، ۔ مشرکین میں حکم بن کیسان ، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے ۔ حضرت واقد کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی ۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا ( یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے ) اور انہوں نے اعتراضا کہا کہ دیکھو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال وقتال کرتے ہیں ، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہو گئی تھیں ، مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں ، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں ، انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبورا واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی کے ہاتھ فتح کروایا ۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا ، گو رجب کا چاند چرھ چکا تھا لیکن صحابہ کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں حضرت رباب اسدی رضی اللہ عنہ تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سب ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لئے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا ، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ وغیرہ بھی تھے مسلمان اول تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آجائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کر سکیں گے انہوں نے شجاعت ومردانگی کے ساتھ حملہ کیا حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہو گیا عثمان اور حکم کو قید کر لیا اور مال وغیرہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے چنانچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ میں تقسیم کر دیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہئے ، جب یہ لشکر سرکار نبوی میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نادم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہو گیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد اور آپ کے صحابہ حرمت والے مہینوں میں بھی جدال وقتال سے باز نہیں رہتے دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زوروشور سے لمبی مدت تک ہوگی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ حضرت الحرب وقت لڑائی آپہنچا ، قاتل کا نام واقد تھا جس سے انہوں نے کہا وقدت الحرب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی لیکن قدرت نے اسے برعکس کر دیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو ، ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج وافسوس نجات پائے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا ، قریشیوں نے پھر آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما جب آجائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چنانچہ جب وہ آگئے تو آپ نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کر دیا حکم بن کیسان رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ ) ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا ، ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بے ادبی کے سبب سے دوسرے صحابی کی چشمک کی بنا پر کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج وغم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہو گیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت ( ان الذین امنوا ) الخ ، نازل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں رضی اللہ عنہم اجمعین ، اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا ، کفار کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر یہ آیت ( یسئلونک ) الخ ، نازل ہوئی یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ حضرت عبداللہ بن جحش نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہ بھی اس طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے ، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار عبداللہ بن جحش کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے اللہ ان سے خوش ہو ۔