Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
يٰيَحۡيٰى خُذِ الۡكِتٰبَ بِقُوَّةٍ‌ ؕ وَاٰتَيۡنٰهُ الۡحُكۡمَ صَبِيًّا ۙ‏ ﴿12﴾
اے یحیٰی! میری کتاب کو مضبوطی سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی ۔
ييحيى خذ الكتب بقوة و اتينه الحكم صبيا
[ Allah ] said, "O John, take the Scripture with determination." And We gave him judgement [while yet] a boy
“Aey yahya! Meri kitab ko mazbooti say thaam ley” aur hum ney ussay larakpan hi say danaee ata farma di.
۔ ( پھر جب یحیی پیدا ہو کر بڑے ہوگئے تو ہم نے ان سے فرمایا ) اے یحیی ! کتاب کو مضبوطی سے تھام لو ۔ ( ٨ ) اور ہم نے بچپن ہی میں ان کو دانائی بھی عطا کردی تھی ۔
اے یحییٰ کتاب ( ف۱٦ ) مضبوط تھام ، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی ( ف۱۷ )
“ اے یحیی ، کتاب الہی کو مضبوط تھام لے ۔ “ 9 ہم نے اسے بچپن ہی میں “ حکم “ 10 سے نوازا ۔
اے یحیٰی! ( ہماری ) کتاب ( تورات ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ، اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت و بصیرت ( نبوت ) عطا فرما دی تھی
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :9 بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمان الہی کے مطابق حضرت یحیی پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام ان سے لیا گیا ۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا ۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :10 حکم یعنی قوت فیصلہ ، قوت اجتہاد ، تفقہ فی الدین معاملات میں صحیح رائے قائم کرنی کی صلاحیت اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار ۔
پیدائش یحییٰ علیہ السلام ۔ بمطابق بشارت الہٰی حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سکھا دی جو ان میں پڑھی جاتی تھی اور جس کا احکام نیک لوگ اور انبیاء دوسروں کو بتلاتے تھے اس وقت ان کی عمر بچپن کی ہی تھی اسی لئے اپنی اس انوکھی نعمت کا بھی ذکر کیا کہ بچہ بھی دیا اور اسے آسمانی کتاب کا عالم بھی بچپن سے ہی کر دیا اور حکم دے دیا کہ حرص اجتہاد کوشش اور قوت کے ساتھ کتاب اللہ سیکھ لے ۔ ساتھ ہی ہم نے اسے اسی کم عمری میں فہم وعلم ، قوت وعزم ، دانائی اور حلم عطا فرمایا نیکیوں کی طرف بچپن سے ہی جھک گئے اور کوشش وخلوص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں لگ گئے ۔ بچے آپ سے کھیلنے کو کہتے تھے مگر یہ جواب پاتے تھے کہ ہم کھیل کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا وجود حضرت زکریا علیہ السلام کے لئے ہماری رحمت کا کرشمہ تھا جس پر بجز ہمارے اور کوئی قادر نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے ۔ کہ واللہ میں نہیں جانتا کہ حنان کا مطلب کیا ہے لغت میں محبت شقفت رحمت وغیرہ کے معنی میں یہ آتا ہے بہ ظاہر یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بچپن سے ہی حکم دیا اور اسے شفقت ومحبت اور پاکیزگی عطا فرمائی ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ اسک شخص جہنم میں ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارتا رہے گا پس ہر میل کچیل سے ہر گناہ اور معصیت سے آپ بچے ہوئے تھے ۔ صرف نیک اعمال آپ کی عمر کا خلاصہ تھا آپ گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے یکسو تھے ساتھ ہی ماں باپ کے فرمابردار اطاعت گزار اور ان کے ساتھ نیک سلوک تھے کبھی کسی بات میں ماں باپ کی مخالفت نہیں کی کبھی ان کے فرمان سے باہر نہیں ہوتے کبھی ان کی روک کے بعد کسی کام کو نہیں کیا کوئی سرکشی کوئی نافرمانی کی خو آپ میں نہ تھی ۔ ان اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے بدلے تینوں حالتوں میں آپ کو اللہ کی طرف سے امن وامان اور سلامتی ملی ۔ یعنی پیدائش والے دن موت والے دن اور حشر والے دن ۔ یہی تینوں جگہیں گھبراہٹ کی اور انجان ہوتی ہیں ۔ انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے جو اس کی آج تک کی دنیا سے عظیم الشان اور بالکل مختلف ہوتی ہے موت والے دن اس مخلوق سے وابسطہ پڑتا ہے جس سے حیات میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا انہیں کبھی نہ دیکھا ۔ محشروالے دن بھی علی ہذالقیاس اپنے تئیں ایک بہت بڑے مجمع میں جو بالکل نئی چیز ہے دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ پس ان تینوں وقتوں میں اللہ کی طرف سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو سلامتی ملی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ قیامت کے دن کچھ نہ کچھ گناہ لے کر جائیں گے سوائے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ آپ نے گناہ بھی کبھی نہیں کیا ۔ یہ حدیث مرفوعا اور دوسندوں سے بھی مروی ہے لیکن وہ دونوں سندیں بھی ضغیف ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے آپ میرے لئے استغفار کیجئے آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت عیسی ٰعلیہ السلام نے فرمایا میں نے آپ ہی اپنے اوپر سلام کیا اور آپ پر خود اللہ نے سلام کہا ۔ اب ان دونوں نے ہی اللہ کی فضیلت ظاہر کی ۔