Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
فَاَتَتۡ بِهٖ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهٗ‌ؕ قَالُوۡا يٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡـًٔـا فَرِيًّا‏ ﴿27﴾
اب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کو لئے ہوئے وہ اپنی قوم کے پاس آئیں ۔ سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی ۔
فاتت به قومها تحمله قالوا يمريم لقد جت شيا فريا
Then she brought him to her people, carrying him. They said, "O Mary, you have certainly done a thing unprecedented.
Abb hazrat essa ( alh-e-salam ) ko liye huye woh apni qom kay pass aaeen. Sab kehney lagay marium tu ney bari buri harkat ki.
پھر وہ اس بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں ( ١٥ ) وہ کہنے لگے کہ : مریم تم نے تو بڑا غضب ڈھا دیا ۔
تو اسے گود میں لے اپنی قوم کے پاس آئی ( ف٤۱ ) بولے اے مریم! بیشک تو نے بہت بری بات کی ،
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی ۔ لوگ کہنے لگے “ اے مریم! یہ تو تو نے بڑا پاپ کر ڈالا ۔
پھر وہ اس ( بچے ) کو ( گود میں ) اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگئیں ۔ وہ کہنے لگے: اے مریم! یقیناً تو بہت ہی عجیب چیز لائی ہے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :19 ان لفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو ۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اخت ہارون کے معنی ہارون کے خاندان کی لڑکی لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرز بیان ہے ۔ مثلاً قبیلہ مضر کے آدمی کو یا اخامصہ ( اے مضر کے بھائی ) اور قبیلہ ہمدانی کے آدمی کو یا اخاھمدان ( اے ہمدان کے بھائی ) کہہ کر پکارتے ہیں ۔ پہلے کے حق میں دلیل ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اس معنی کا تقاضا کرتا ہے ۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیئے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہ ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی ۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابل لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ہارون کی بہن ہی ہیں ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے ۔ حضرت مغیرہ ان کے اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے یہ جواب کیوں نہ دے دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیا اور صلحاء کے نام پر رکھتے تھے ؟ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا ۔
تقدس مریم اور عوام حضرت مریم علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کر لیا اور اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں ۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تونے تو بڑا ہی برا کام کیا ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا ۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں ۔ لیکن میں نے رات کو عجیب بات دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گر گئیں ۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آرہا تھا ۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو لئے ہوئے آتی دکھائی دی گیئں انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھ گئیں ۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے ۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت ہارون کی نسل سے تھیں ۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت وریاضت حضرت مریم صدیقہ کی تھی ۔ اس لئے انہیں ہارون کی بہن کہا گیا ۔ کوئی کہتا ہے ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا اس لئے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا ۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون وموسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے ۔ یہ قول تو بالکل غلط ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے آپ کے بعد صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہوئے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لئے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان اور کوئی نبی نہیں گزرا ۔ پس اگر ماننا پڑے گا کہ آپ حضرت سلیمان علیہ السلام اور جضرت داؤد علیہ السلام سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں ملاحظہ ہوآیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ٢٤٦؁ ) 2- البقرة:246 ) ، ان آیتوں میں حضرت داؤد کا واقعہ اور آپ کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے اور لفظ موجود ہیں کہ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہیں جو غلطی لگی ہے اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون کی بہت تھیں ، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں ۔ اس عبارت سے قرظی رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھ لیا کہ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے ۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ہو سکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں ۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے ۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے گزرے ہیں مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا جب میں مدینے واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم شریف میں یہ بھی حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت کعب نے کہا تھا کہ یہ ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون نہیں اس پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انکار کیا تو آپ نے کہا کہ اگر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ یہ سن کر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش ہوگئیں ۔ اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت مریم علیہ السلام کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتا چلی آرہی تھی ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد ۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور عام شوق ہوگیا تھا یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن حضرت ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے ۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہوگئی تم تو نیک کو کھ کی بچی ہو ماں باپ دونوں صالح سارا گھرانہ پاک پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھ لو ۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے ۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ اتنے میں بن بلائے آپ بول اٹھے کہ لوگوں میں اللہ کا ایک غلام ہوں ۔ سب سے پہلا کلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ہے ۔ اللہ کی تنزیہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کر دیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی پھر اپنی نبوت کا اظہار کر کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے ۔ اس میں اپنی والدہ کی برات بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا ۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا ۔ عکرمہ تو فرماتے ہیں مجھے اپنے کسی عمل کے اعلان کی اجازت ہے فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لئے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا ۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے ۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا ۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے ۔ فرماتے ہیں مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز وزکوۃ کا پابند رہوں ۔ یہی حکم ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا ۔ ارشاد ہے ( واعبد ربک حتی یاتیک القین ) مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ ۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں ۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہو جاتی ہے ۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے ۔ عموما قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) اور آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14؀ ) 31- لقمان:14 ) میں ۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یہ والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں ۔ کہتے ہیں جباروشقی وہ ہے جو غصے میں آکر خونریزی کر دے ۔ فرماتے ہیں ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو ۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو ۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا ۔ آپ نے جواب دیا مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی پھر تابعداری کی ۔ اور سرکش اور بدبخت نہ بنا ۔ پھر فرماتے ہیں میری پیدائش کے دن ، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پرسلامتی ہے اس سے بھی آپ کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الہٰی ہونا ثابت ہورہا ہے کہ آپ مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے ۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی ۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں آپ پر آسان اور سہل ہوں گے نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ