سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :20
قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ہم اس سے کیا بات کریں جو کل کا بچہ ہے یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسی کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا تھا ۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کرے گا یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے ۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کرنے کے لیئے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت ۔ علاوہ بریں سورہ آل عمران کی آیت 46 ، اور سورہ مائدہ کی آیت ، 110 دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسی نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نو زائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا ۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی ۔ دوسری آیت میں اللہ تعالی خود حضرت عیسی سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے گہوارہ میں بھی بات کرتا تھا اور جوانی میں بھی ۔