Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡاۤ اٰمَنَّا ۖۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡاۤ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿14﴾
اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کو ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے صر ف مذاق کرتے ہیں ۔
و اذا لقوا الذين امنوا قالوا امنا و اذا خلوا الى شيطينهم قالوا انا معكم انما نحن مستهزءون
And when they meet those who believe, they say, "We believe"; but when they are alone with their evil ones, they say, "Indeed, we are with you; we were only mockers."
Aur jab eman walon say miltay hain to kehtay hain kay hum bhi eman walay hain aur jab apney baron kay pass jatay hain to kehtay hain kay hum to tumharay sath hain hum to inn say sirf mazaq kertay hain.
اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں ( ١٣ ) کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کررہے تھے
اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں ( ف۲۰ ) تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں ۔ ( ف۲۱ )
جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ، اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں 15 سے ملتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمھارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں ۔
اور جب وہ ( منافق ) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ( بھی ) ایمان لے آئے ہیں ، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں ، ہم ( مسلمانوں کا تو ) محض مذاق اڑاتے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :15 شیطان عربی زبان میں سرکش ، متمرّد اور شوریدہ سر کو کہتے ہیں ۔ انسان اور جِنّ دونوں کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے ۔ اگر چہ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر شیاطین جِنّ کے لیے آیا ہے ، لیکن بعض مقامات پر شیطان صفت انسانوں کے لیے بھی یہ استعمال کیا گیا ہے اور سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جا تا ہے کہ کہاں شیطان سے انسان مراد ہیں اور کہاں جِنّ ۔ اس مقام پر شیاطین کا لفظ ان بڑے بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے ، جو اس وقت اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے ۔
فریب زدہ لوگ مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے ، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے ۔ اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں ۔ خلوا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں ۔ اور جاتے ہیں پس خلوا جو کہ الیٰ کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں ۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں الیٰ معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ، ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین ۔ حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی ۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق ۔ قتادہ فرماتے ہیں ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے ۔ ابو العالیہ ، سدی ، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔ قرآن میں بھی آیت ( شیاطین الانس والجن ) آیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں جب یہ منافق مسلمان سے ملتے تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں ۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے ، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں ۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو ۔ اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا ، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا ۔ فرمان الٰہی ہے کافر ہماری ڈھیل کو اپنے حق میں بہتر نہ جانیں ۔ اس تاخیر میں وہ اپنی بد کرداریوں میں اور بڑھ جاتے ہیں پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق ، مکر ، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے ۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ آیت ( وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:54 ) اور آیت ( اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:15 ) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے ۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی ، دھوکہ ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دیگا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں ۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ) 10 ۔ یونس:27 ) یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں ۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں ۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ظلم ہے اور دوسری برائی اور زیادتی عدل ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے ۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے ۔ ایک اور مطلب بھی سنئے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے ، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے ۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر ، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام ، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے ۔ یمدھم کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ ) 23 ۔ المومنون:55 ) یعنی کیا یہ یوں سمھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لئے باعث خیر ہے نہیں!نہیں! نہیں! صحیح شعور ہی نہیں اور آیت ( سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:182 ) اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے ۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 45؀ ) 6 ۔ الانعام:45-44 ) یعنی جب لوگوں نے نصیحت بھلا دی ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ وہ اپنی چیزوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا ، اب گھبرا گئے ، ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لئے ہی ہیں ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:110 ) طغیان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو ۔ جیسے فرمایا آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ) 69 ۔ الحاقۃ:11 ) ابن عباس فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں ۔ عمہ کہتے ہیں گمراہی کو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں ، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں ۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے ۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں عمی کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے عمہ کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی عمی کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) 22 ۔ الحج:46 )