Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
وَاذۡكُرۡ فِى الۡكِتٰبِ اِدۡرِيۡسَ‌ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيۡقًا نَّبِيًّا ۙ ‏ ﴿56﴾
اور اس کتاب میں ادریس ( علیہ السلام ) کا بھی ذکر کر ، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا ۔
و اذكر في الكتب ادريس انه كان صديقا نبيا
And mention in the Book, Idrees. Indeed, he was a man of truth and a prophet.
Aur iss kitab mein idris ( alh-e-salam ) ka bhi zikar ker woh bhi nek kirdaar payghumber tha.
اور اس کتاب میں ادریس کا بھی تذکرہ کرو ، بیشک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے ۔
اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو ( ف۹۳ ) بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا ،
اور اس کتاب میں ادریس ( علیہ السلام ) 33 کا ذکر کرو ۔ وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا
اور ( اس ) کتاب میں ادریس ( علیہ السلام ) کا ذکر کیجئے ، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :33 حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے ۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح سے بھی پہلے گزرے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو ۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح سے مقدم ہیں ۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ نبی ( جن کا ذکر اوپر گزرا ہے ) آدم کی اولاد ، نوح کی اولاد ، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحیی ، عیسی اور موسی علیہ السلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام اولاد ابراہیم سے ہیں اور حضرت ابراہیم اولاد نوح سے ، اس کے بعد صرف حضرت ادریس ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اولاد آدم سے ہیں ۔ مفسرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک ( Enoch ) بتایا گیا ہے ، وہی حضرت ادریس ہیں ۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے: اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ غائب ہوگیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا ۔ ( پیدائش ، باب 5 ۔ آیت 24 ۔ ) تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو ، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے ، پکارا کہ اے حنوک ، اٹھو ، گوشہ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو راستہ بتاؤ ۔ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے؛ یہ حکم پاکر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسل انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی ۔ حنوک 353برس تک نسل انسانی پر حکمران رہے ۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی ۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں ۔ The Talmud Selections, pp, 18-21 ) )
حضرت ادریس علیہ السلام کا تعارف ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ آپ سچے نبی تھے اللہ کے خاص بندے تھے ۔ آپ کو ہم نے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ صحیح حدیث کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ چوتھے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس وحی آئی کہ کل اولاد آدم کے نیک اعمال کے برابر صرف تیرے نیک اعمال میں اپنی طرف ہر روز چڑھاتا ہوں ۔ اس پر آپ نے ذکر کیا میرے پاس یوں وحی آئی ہے اب تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری موت میں تاخیر کریں تو میں نیک اعمال میں اور اور بڑھ جاؤں ۔ اس فرشتے نے آپ کو اپنے پروں میں بٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا جب چوتھے آسمان پر آپ پہنچے تو ملک الموت کو دیکھا ، فرشتے نے آپ سے حضرت ادریس علیہ السلام کی بابت سفارش کی تو ملک الموت نے فرمایا وہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہایہ ہیں میرے بازو پر بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا سبحان اللہ مجھے یہاں اس آسمان پر اس کی روح کے قبض کرنے کا حکم ہو رہا ہے چنانچہ اسی وقت ان کی روح قبض کر لی گئی ۔ یہ ہیں اس آیت کے معنی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ کعب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بیان اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کے بعض میں نکارت ہے واللہ اعلم ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے بذریعہ اس فرشتے کو پچھوایا تھا کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ فرشتے کے اس سوال پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میں دیکھ لوں دیکھ کر فرمایا صرف ایک آنکھ کی پلک کے برابر اب جو فرشتہ اپنے پر تلے دیکھتا ہے تو حضرت ادریس علیہ السلام کی روح پرواز ہو چکی تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ درزی تھے سوئی کے ایک ایک ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے ۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں پر چڑھالئے گئے ۔ آپ مرے نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بےموت اٹھا لئے گئے اور وہیں انتقال فرماگئے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے بلند مکان سے مراد جنت ہے ۔