Surah

Information

Surah # 19 | Verses: 98 | Ruku: 6 | Sajdah: 1 | Chronological # 44 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 58 and 71, from Madina
وَقَالُوۡا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ؕ‏ ﴿88﴾
ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ۔
و قالوا اتخذ الرحمن ولدا
And they say, "The Most Merciful has taken [for Himself] a son."
Inn ka qol to yeh hai kay Allah rehman ney bhi aulad ikhtiyar ki hai.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے ۔
اور کافر بولے ( ف۱٤۹ ) رحمن نے اولاد اختیار کی ،
وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اور ( کافر ) کہتے ہیں کہ ( خدائے ) رحمان نے ( اپنے لئے ) لڑکا بنا لیا ہے
عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے ۔ اس لئے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ جس سے ذات الہٰی پاک ہے ۔ ان کے قول کو بیان فرمایا ۔ پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ادا اور ادا تینوں لغت ہیں لیکن مشہور ادا ہے ۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے ۔ اس لئے کہ زمین وآسمان اللہ تعالیٰ کی عزت وعظمت جانتی ہے ، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے نہ اس کی جنس کا کوئی نہ اس کی ماں نہ اولاد نہ اس کے شریک نہ اس جیسا کوئی ۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے ۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہوجائے ۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی ۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اپنے مرنے والوں کو لا الہ اللہ کی تلقین کرو ۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا اس کے لئے اور زیادہ واجب ہوگئی ۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین وآسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہو جانا آیا ہے واللہ اعلم ۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں اور کلام نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑ گئے ۔ کعب کہتے ہیں ملائیکہ غضبناک ہوگئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے ، روزیاں پہنچا رہا ہے ، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے ۔ پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے زمین وآسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں اللہ کی عظمت وشان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں اس لئے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں زمین وآسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں ۔ ہر مرد وعورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجی ۔ ہر ایک بےیارو مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی وحدہ لاشریک لہ سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا عادل ہے ظالم نہیں کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے ۔