Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‌ فَاِمۡسَاكٌ ۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌ ۢ بِاِحۡسَانٍ‌ ؕوَلَا يَحِلُّ لَـکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّآ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ شَيۡـــًٔا اِلَّاۤ اَنۡ يَّخَافَآ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِهٖؕ‌ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَعۡتَدُوۡهَا ‌ۚ‌ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿229﴾
یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے ، اس میں دونوں پر گناہ نہیں یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں ۔
الطلاق مرتن فامساك بمعروف او تسريح باحسان و لا يحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله فان خفتم الا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به تلك حدود الله فلا تعتدوها و من يتعد حدود الله فاولىك هم الظلمون
Divorce is twice. Then, either keep [her] in an acceptable manner or release [her] with good treatment. And it is not lawful for you to take anything of what you have given them unless both fear that they will not be able to keep [within] the limits of Allah . But if you fear that they will not keep [within] the limits of Allah , then there is no blame upon either of them concerning that by which she ransoms herself. These are the limits of Allah , so do not transgress them. And whoever transgresses the limits of Allah - it is those who are the wrongdoers.
Yeh tallaqen do martaba hain phir ya to achai say rokna ya umdagi kay sath chor dena aur tumhen halal nahi kay tum ney unhen jo dey diya hai uss mein say kuch bhi lo haan yeh aur baat hai kay dono ko Allah ki hudood qaeem na rakh sakney ka khof ho iss liye agar tumhen darr ho kay yeh dono Allah ki haden qaeem na rakh saken gay to aurat rehaee paney kay liye kuch dey dalay iss mein dono per gunah nahi yeh Allah ki hudood hain khabardar inn say aagay na barhna aur jo log Allah ki haddon say tajawuz ker jayen woh zalim hain.
طلاق ( زیادہ سے زیادہ ) دو بار ہونی چاہئیے ، اس کے بعد ( شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں ) یا تو قاعدے کے مطابق ( بیوی کو ) روک رکھے ( یعنی طلاق سے رجوع کرلے ) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے ( یعنی رجوع کے بغیر عدت گذر جانے دے ) اور ( اے شوہرو ) تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم نے ان ( بیویوں ) کو جو کچھ دیا ہو وہ ( طلاق کے بدلے ) ان سے واپس لو ، الا یہ کہ دونوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ ( نکاح باقی رہنے کی صورت میں ) اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ( ١٥١ ) ۔ چنانچہ اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت مالی معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں ، لہذا ان سے تجاوز نہ کرو ۔ اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں ۔
یہ طلاق ( ف٤٤٦ ) دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے ( ف٤٤۷ ) یا نکوئی ( اچھے سلوک ) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ( ف٤٤۸ ) اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا ( ف٤٤۹ ) اس میں سے کچھ واپس لو ( ف٤۵۰ ) مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے ( ف٤۵۱ ) پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے ، ( ف٤۵۲ ) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ،
طلاق دو بار ہے ۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے ۔ 250 اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ 251 البتہ یہ صورت مستشنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ۔ ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ۔ 252 یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو ۔ اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں ۔
طلاق ( صرف ) دو بار ( تک ) ہے ، پھر یا تو ( بیوی کو ) اچھے طریقے سے ( زوجیت میں ) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ ( اب رشتۂ زوجیت برقرار رکھتے ہوئے ) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے ، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے ، سو ( اندریں صورت ) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی ( خود ) کچھ بدلہ دے کر ( اس تکلیف دہ بندھن سے ) آزادی لے لے ، یہ اﷲ کی ( مقرر کی ہوئی ) حدیں ہیں ، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :250 اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی ، جو عرب جاہلیت میں رائج تھی ، اصلاح کی گئی ہے ۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حد و حساب طلاق دینے کا مجاز تھا ۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا ، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اور سے نکاح ہی کر سکے ۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے ۔ اس آیت کی رو سے ایک مرد ایک رشتہ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاق رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے ۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو ، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا ، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی ۔ طلاق کا صحیح طریقہ ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ ہے کہ عورت کو حالت طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو ، جبکہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے ، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ، تو دوسرے طہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دیدے ، ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔ اس صورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کر لے ، اور عدت گزر بھی جائے ، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں ۔ لیکن تیسرے طہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔ رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ، جیسا کہ آج کل جہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ، آپ اس کو درے لگاتے تھے ۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ، ائمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :251 یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ ، جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو ، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے ۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ، جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو ، واپس مانگے ۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے ، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے ۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے ، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے ۔ جیسا کہ آگے آیت ۲٤۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :252 شریعت کی اصطلاح میں اسے” خلع“ کہتے ہیں ، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا ۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے ، تو جو کچھ طے ہوا ہو ، وہی نافذ ہو گا ۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے ، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے ، تجویز کرے ، اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا ۔ بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو ، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے ۔ خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے ، وہ رجعی نہیں ہے ، بلکہ بائنہ ہے ۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ، اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں ، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔ جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے ۔ مگر ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں متعدد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا ( ابن کثیر ، جلد اوّل ، ص ۲۷٦ ) ۔
رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع: اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی ، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کر لیا ، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے ، پس اسلام نے حد بندی کر دی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں ۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا ، سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے ، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا یہ کس طرح؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کر لوں گا ، پھر طلاق دے دوں گا ، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا ۔ وہ عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اپنا یہ دُکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ، ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے ، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہو جائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو ، اس پر کوئی ظلم نہ کرو ، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ ، ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہو چکی ہیں تیسری کا ذِکر کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا آیت ( اوتسریح باحسان ) میں ، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے ، یہ مردوں پر حرام ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ) 4 ۔ النسآء:19 ) یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت ( فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا ) 4 ۔ النسآء:4 ) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کر لے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چنانچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ، اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں ، آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو ، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کر سکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں ، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولی جائز ٹھہرے گا ، بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت ( وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا ) 4 ۔ النسآء:20 ) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو ، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو ، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے ، اب آیت کا شان نزول سنئے ، موطا مالک میں ہے کہ حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑے ہیں ، آپ نے پوچھا کون ہے؟ کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں ۔ فرمایا کیا بات ہے؟ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں ، آپ سن کر خاموش رہے ۔ جب ثابت آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں ۔ حضرت حبیبہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو ، چنانچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہو گئیں ، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں ، یہ سب واپس دلوا دیجئے ۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہو گئی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چنانچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی ۔ بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے ۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دِیا ہے لے لو ، زیادہ نہ لینا ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا ۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں ، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو ، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی ، جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت ( فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ:229 ) فرمایا ہے ، حضرت عمر کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی ، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کر دو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں ۔ آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کر لے ۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو ، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا ، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے ۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہو سکتا ہے ۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کر دیتے ۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو ۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہو گیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمان کے پاس گئے ۔ عثمان نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو ، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس ( سیس ) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو ، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کر سکتا ہے ۔ ابن عمر ، ابن عباس ، مجاہد ، عکرمہ ، ابراہیم ، نخعی ، قیصہ بن ذویب ، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام مالک ، لیث ، امام شافعی اور ابو ثور کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے ، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں ۔ گو ، لے لے تو قضا جائز ہوگا ۔ امام احمد ابو عبید اور اسحق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں ۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے ۔ عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علی کا بھی یہ فیصلہ ہے ۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے ۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو ۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا ، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا ، کا لفظ قرآن میں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو ، ربیع کی قرأت میں بہ کے بعد منہ کا لفظ بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے ( فصل ) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کر سکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں ۔ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے ، حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں ، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذِکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذِکر ہے ، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے ۔ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابو ثور ، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمان نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے ، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن عمر ، سعید بن مسیب ، حسن ، عطا ، شریح ، شعبی ، ابراہیم ، جابر بن زید ، مالک ، ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری ، اوزاعی ، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے ۔ امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے ، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہو جائیں گی ۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہو جائیں گی ۔ امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں ۔ مسئلہ: امام ابو حنیفہ ، شافعی احمد ، اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے ۔ عمر علی ابن مسعود اور سعید بن مسیب ، سلمان بن یسار ، عمروہ ، سالم ، ابو سلمہ ، عمر بن عبدالعزیز ، ابن شہاب ، حسن ، شعبی ، ابراہیم نخعی ، ابو عیاض ، خلاس بن عمرو ، قتادہ ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، لیث بن سعد اور ابو عبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے ۔ حضرت عثمان کا یہی فیصلہ ہے ، ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں ، اور ابن عمر سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے ۔ ابن عباس ، عکرمہ ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو ، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا ، ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صادر ہوا تھا ۔ حضرت عثمان نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں ۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آ جانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو ۔ مریم مغالبہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمومنین نے کی ۔ مسئلہ: جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں ، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی ، ماہان حنفی ، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کر سکتا ہے ۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے ، داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں ، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کر سکتے ہیں ۔ عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا ، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کر سکتا ، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے ۔ مسئلہ: اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ نہیں ، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہو گئی ہے ، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابو ثور کا یہی قول ہے ۔ دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہو جائے گی ورنہ نہیں ، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان سے مروی ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ ابو حنیفہ ان کے اصحاب ، ثوری ، اوزاعی ، سعید بن مسیب ، شریح ، طاؤس ، ابراہیم ، زہری ، حاکم ، حکم اور حماد کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن مسعود اور ابو الدرداء سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں ۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو ، فرائض کو ضائع نہ کرو ، محارم کی بےحرمتی نہ کرو ، جن چیزوں کا ذِکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے ۔ اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں ۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے ، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت ( الطلاق مرتان ) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں ۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا ۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو ، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے ۔