Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ‌ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿230﴾
پھر اگر اس کو ( تیسری بار ) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں ، بشرطیکہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے ، یہ اللہ تعالٰی کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے ۔
فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره فان طلقها فلا جناح عليهما ان يتراجعا ان ظنا ان يقيما حدود الله و تلك حدود الله يبينها لقوم يعلمون
And if he has divorced her [for the third time], then she is not lawful to him afterward until [after] she marries a husband other than him. And if the latter husband divorces her [or dies], there is no blame upon the woman and her former husband for returning to each other if they think that they can keep [within] the limits of Allah . These are the limits of Allah , which He makes clear to a people who know.
Phir agar iss ko ( teesri baar ) tallaq dey dey to abb iss kay liye halal nahi jab tak kay woh aurat iss kay siwa doosray say nikkah na keray phir agar woh bhi tallaq dey dey to inn dono ko mail jol ker lenay mein koi gunah nahi ba shart-e-kay yeh jaan len kay Allah ki haddon ko qaeem rakh saken gay yeh Allah Taalaa ki hudood hain jinhen woh janney walon kay liye biyan farma raha hai.
پھر اگر شوہر ( تیسری ) طلاق دیدے تو وہ ( مطلقہ عورت ) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے ، ہاں اگر وہ ( دوسرا شوہر بھی ) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس ( نیا نکاح کر کے ) دوبارہ واپس آجائیں ، بشرطیکہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود قائم رکھیں گے ، اور یہ سب اللہ کی حدود ہیں جو وہ ان لوگوں کے لیے واضھ کر رہا ہے جو سمجھ رکھتے ہوں ۔
پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ، ( ف٤۵۳ ) پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں ( ف٤۵٤ ) اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے ، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے ،
پھر اگر﴿ دو بار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار﴾طلاق دے دی ، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی ، اِلّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے ۔ 253 تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنھیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے ، جو ﴿اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام ﴾جانتے ہیں ۔
پھر اگر اس نے ( تیسری مرتبہ ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے ، پھر اگر وہ ( دوسرا شوہر ) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں ( یعنی پہلے شوہر اور اس عورت ) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ ( دوبارہ رشتۂ زوجیت میں ) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ ( اب ) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے ، یہ اﷲ کی ( مقرر کردہ ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :253 احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کر نے کے خاطر کسی سے سازش کے طور پر اس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا ، تو یہ سراسر ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح ، نکاح نہ ہوگا ، بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور عُقّبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مُتّفقَہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔
پھر ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے چکنے کے بعد تیسری بھی دے دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے سے باقاعدہ نکاح ہو ، ہم بستری ہو ، پھر وہ مر جائے یا طلاق دے دے ۔ پس اگر نکاح کے مثلاً لونڈی بنا کر وطی بھی کر لے تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گو نکاح باقاعدہ ہو لیکن اس دوسرے خاوند نے مجامعت نہ کی ہو تو بھی پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ۔ اکثر فقہاء میں مشہور ہے کہ حضرت سعید بن مسیب مجرم ( صرف ) و عقد کے حلال کہتے ہیں گو میل نہ ہوا ہو ، لیکن یہ بات ان سے ثابت نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے ، تو کیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں ، جب تک کہ یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں ( مسند احمد ابن ماجہ وغیرہ ) اس روایت کے راوی حضرت ابن عمر سے خود امام بن مسیب ہیں ، پس کیسے ممکن ہے کہ وہ روایت بھی کریں اور پھر مخالفت بھی کریں اور پھر وہ بھی بلادلیل ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ عورت رخصت ہو کر جاتی ہے ، ایک مکان میں میاں بیوی جاتے ہیں ، پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن آپس میں صحبت نہیں ہوتی ، جب بھی یہی حکم ہے ۔ خود آپ کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوا ، آپ سے پوچھا گیا مگر آپ نے پہلے خاوند کی اجازت نہ دی ( بخاری مسلم ) ایک روایت میں ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی صاحب تمیمہ بنت وہب کو جب انہوں نے آخری تیسری طلاق دے دی تو ان کا نکاح حضرت عبدالرحمن بن زیبر سے ہوا لیکن یہ شکایت لے کر دربارِ رسالت مآب میں آئیں اور کہا وہ عورت کے مطلب کے نہیں ، مجھے اجازت ہو کہ میں اگلے خاوند کے گھر چلی جاؤں ۔ آپ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمہاری کسی اور خاوند سے مجامعت نہ ہو ، ان احادیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہیں ( فصل ) یہ یاد رہے کہ مقصود دوسرے خاوند سے یہ ہے کہ خود اسے رغبت ہو اور ہمیشہ بیوی بنا کر رکھنے کا خواہش مند ہو ، کیونکہ نکاح سے مقصود یہی ہے ، یہ نہیں کہ اگلے خاوند کیلئے محض حلال ہو جائے اور بس ، بلکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ یہ بھی شرط ہے کہ یہ مجامعت بھی مباح اور جائز طریق پر ہو مثلاً عورت روزے سے نہ ہو ، احرام کی حالت میں نہ ہو ، اعتکاف کی حالت میں نہ ہو ، حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہو ، اسی طرح خاوند بھی روزے سے نہ ہو ، محرم یا معتکف نہ ہو ، اگر طرفین میں سے کسی کی یہ حالت ہو اور پھر چاہے وطی بھی ہو جائے پھر بھی پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی ۔ اسی طرح اگر دوسرا خاوند ذمی ہو تو بھی اگلے خاوند کیلئے حلال نہ ہو گی کیونکہ امام صاحب کے نزدیک کفار کے آپس کے نکاح باطل ہیں ۔ امام حسن بصری تو یہ بھی شرط لگاتے ہیں کہ انزال بھی ہو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کہ وہ تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھے ، اور اگر یہی حدیث ان کے پیشِ نظر ہو جائے تو چاہئے کہ عورت کی طرف سے یہ بھی یہ شرط معتبر ہو لیکن حدیث کے لفظ عسیلہ سے منی مراد نہیں ، یہ یاد رہے ، کیونکہ مسند احمد اور نسائی میں حدیث ہے کہ عسیلہ سے مراد جماع ہے ۔ اگر دوسرے خاوند کا ارادہ اس سے نکاح سے یہ ہے کہ یہ عورت پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے تو ایسے لوگوں کی مذمت بلکہ ملعون ہونے کی تصریح احادیث میں آ چکی ہے ، مسند احمد میں ہے گودنے والی ، گدوانے والی ، بال ملانے والی ، ملوانے والی عورتیں ملعون ، حلال کرنے والی اور جس کیلئے حلالہ کیا جاتا ہے ان پر بھی اللہ کی پھٹکار ہے ۔ سود خور اور سود کھلانے والے بھی لعنتی ہیں ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں صحابہ کا عمل اسی پر ہے ۔ عمر ، عثمان اور ابن عمر کا یہی مذہب تابعین فقہاء بھی یہی کہتے ہیں ، علی ابن مسعود اور ابن عباس کا بھی یہی فرمان ہے اور روایت میں ہے کہ بیاج کی گواہی دینے والوں اور اس کے لکھنے پر بھی لعنت ہے ۔ زکوٰۃ کے نہ دینے والوں اور لینے میں زیادتی کرنے والوں پر بھی لعنت ہے ، ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی بننے والے پر بھی پھٹکار ہے نوحہ کرنا بھی ممنوع ہے ، ایک حدیث میں ہے میں تمہیں یہ بتاؤں کہ ادھار لیا ہوا سانڈ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں ۔ فرمایا جو حلالہ کرے یعنی طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ وہ اگلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے ، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو اپنے لئے ایسا کرائے وہ بھی ملعون ہے ( ابن ماجہ ) ایک روایت میں ہے کہ ایسے نکاح کی بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ نکاح ہی نہیں جس میں مقصود اور ہو اور ظاہر اور ہو ، جس میں اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق اور ہنسی ہو ، نکاح صرف وہی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو ، مستدرک حاکم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دی ، اس کے بعد اس کے بھائی نے بغیر اپنے بھائی کے کہے ازخود اس سے اس ارادے سے نکاح کر لیا کہ یہ میرے بھائی کیلئے حلال ہو جائے ، تو آیا نہ نکاح صحیح ہو گیا ۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ، ہم تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زنا شمار کرتے تھے ۔ نکاح وہی ہے جس میں رغبت ہو ، اس حدیث کے پچھے جملے نے گو اِسے موقوف سے حکم میں مرفوع کر دیا ، بلکہ ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمنین حضرت عمر فاروق نے ایسے نکاح میں تفریق کر دی ، اسی طرح حضرت علی اور حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے صحابہ کرام سے بھی یہی مروی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ اگر دوسرا خاوند نکاح اور وطی کے بعد طلاق دے تو پہلے خاوند پر پھر اسی عورت سے نکاح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں جبکہ یہ اچھی طرح گزر اوقات کرلیں اور یہ بھی جان لیں کہ وہ دوسرا نکاح صرف دھوکہ اور مکروفریب کا نہ تھا بلکہ حقیقت تھی ۔ یہ ہیں احکام شرعی جنہیں علم والوں کیلئے اللہ نے واضح کر دیا ، آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو یا ایک طلاق دے دی ، پھر چھوڑے رہا یہاں تک کہ وہ عدت سے نکل گئی ، پھر اس نے دوسرے سے گھر بسا لیا ، اس سے ہم بستری بھی ہوئی ، پھر اس نے بھی طلاق دے دی اور اس کی عدت ختم ہو چکی ، پھر اگلے خاوند نے اس سے نکاح کر لی تو اسے تین میں سے جو طلاقیں یعنی ایک یا دو جو باقی ہیں صرف انہی کا اختیار رہے گا یا پہلے کی طرح طلاقیں گنتی سے ساقط ہو جائیں گی اور اسے از سر نو تینوں طلاقوں کا حق حاصل ہو جائے گا ، پہلا مذہب تو ہے امام مالک امام شافعی اور امام احمد کا اور صحابہ کی ایک جماعت کا ، دوسرا مذہب ہے امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اس طرح تیسری طلاق ہو ، گنتی میں نہیں آئی تو پہلی دوسری کیا آئے گی ، واللہ اعلم ۔