Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ مَهۡدًا وَّسَلَكَ لَـكُمۡ فِيۡهَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰى‏ ﴿53﴾
اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا ہے اور اس میں تمہارے چلنے کے لئے راستے بنائے ہیں اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتا ہے ، پھر اس برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں ۔
الذي جعل لكم الارض مهدا و سلك لكم فيها سبلا و انزل من السماء ماء فاخرجنا به ازواجا من نبات شتى
[It is He] who has made for you the earth as a bed [spread out] and inserted therein for you roadways and sent down from the sky, rain and produced thereby categories of various plants.
Ussi ney tumharay liye zamin ko farash banaya hai aur iss mein tumharay chalney kay raastay banaye hain aur aasman say paani bhi wohi barsata hai phir iss barasaat ki waja say mukhtalif qisam ki paidawaar bhi hum hi peda kertay hain.
یہ وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنا دیا ، اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے ، اور آسمان سے پانی برسایا ، پھر ہم نے اس کے ذریعے طرح طرح کی مختلف نباتات نکالیں ۔
وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لیے اس میں چلتی راہیں رکھیں اور آسمان سے پانی اتارا ( ف٦٤ ) تو ہم نے اس سے طرح طرح کے سبزے کے جوڑے نکالے ( ف٦۵ )
26 وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا ، اور اس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے ، اور اوپر سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی ۔
وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے رہنے کی جگہ بنایا اور اس میں تمہارے ( سفر کرنے کے ) لئے راستے بنائے اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا ، پھر ہم نے اس ( پانی ) کے ذریعے ( زمین سے ) انواع و اقسام کی نباتات کے جوڑے نکال دیئے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :26 انداز کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب نہ بھولتا ہے پر ختم ہو گیا ، اور یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے ۔ قرآن میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے ، تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و بند ، یا شرح و تفسیر ، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف انداز کلام سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے ۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو : رَبُّنَا الَّذِئٓ اَعْطٰی کُلَّ شَئءٍ سے شروع ہوا ہے ۔
اللہ رب العزت کا تعارف ۔ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش بنایا ہے ۔ مھدا کی دوسری قرأت مھادا ہے ۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو ، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو ۔ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لئے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو ۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے ۔ کھیتیاں باغات میوے قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھالو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو ۔ تمہارا کھانا اور میوے تمہارے جانوروں کا چارا خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ان کے لئے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں ۔ اللہ کی الوہیت ، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے ۔ تمہاری ابتدا اسی سے ہے ۔ اس لئے کہ تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے ۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے ، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے ، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے ۔ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی مر کر بھی اسی میں جاؤ گے پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے ۔ سنن کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا ( مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ 55؁ ) 20-طه:55 ) دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا ( وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ 55؁ ) 20-طه:55 ) تیسری بار فرمایا ( وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55؁ ) 20-طه:55 ) ۔ الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں ، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لئے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا ، کفر سرکشی ضد اور تکبر سے باز نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے ۔