Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَتَوَلّٰى فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ كَيۡدَهٗ ثُمَّ اَتٰى‏ ﴿60﴾
پس فرعون لوٹ گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈے جمع کئے پھر آگیا ۔
فتولى فرعون فجمع كيده ثم اتى
So Pharaoh went away, put together his plan, and then came [to Moses].
Pus firaon lot gaya aur uss ney apnay hath kanday jama kiye phir aagaya.
چنانچہ فرعون ( اپنی جگہ ) واپس چلا گیا ، اور اس نے اپنی ساری تدبیریں اکٹھی کیں ، پھر ( مقابلے کے لیے ) آگیا ۔
تو فرعون پھرا اور اپنے داؤں ( فریب ) اکٹھے کیے ( ف۷۷ ) پھر آیا ( ف۷۸ )
فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا ۔ 32
پھر فرعون ( مجلس سے ) واپس مڑ گیا سو اس نے اپنے مکر و فریب ( کی تدبیروں ) کو اکٹھا کیا پھر ( مقررہ وقت پر ) آگیا
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :32 فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کے فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے ۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اسے لے آئیں ۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں ۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے ۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا ، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا ( ملاحظہ ہو سورۂ ہو سورۂ شعراء رکوع 3 ) ۔ اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مصر کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا ۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے ، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے ، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی ، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی ، دونوں کے عملی طریقے اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو Toynbee کی A Study of History صفحہ 31 ۔ 32 ) ۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نوبت ایک توحیدی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے ۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صدی حصہ تھے ۔ اس کے علاوہ اس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمیں وفس یا اَخناتون ( 1377 ق م 1360 ق م ) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا ، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتون باقی رکھا گیا تھا ۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے الٹ دیا گیا ، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا ۔ ان حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کی وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی ۔
مقابلہ اور نتیجہ ۔ جب کہ مقابلہ کی تاریخ مقرر ہو گئی ، دن وقت اور جگہ بھی ہو گئی تو فرعون نے ادھر ادھر سے جادوگروں کو جمع کرنا شروع کیا اس زمانے میں جادو کا بہت زور تھا اور بڑے بڑے جادوگر موجود تھے ۔ فرعون نے عام طور سے حکم جاری کر دیا تھا کہ تمام ہوشیار جادوگروں کو میرے پاس بھیج دو ۔ مقررہ وقت تک تمام جادوگر جمع ہوگئے فرعون نے اسی میدان میں اپنا تخت نکلوایا اس پر بیٹھا تمام امراء وزراء اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے رعایا سب جمع ہو گئی جادوگروں کی صفوں کی صفیں پرا باندھے تخت کے آگے کھڑی ہو گئیں ۔ فرعون نے ان کی کمر ٹھونکنی شروع کی اور کہا دیکھو آج اپنا وہ ہنر دکھاؤ کہ دنیا میں یادگار رہ جائے ۔ جادوگروں نے کہا کہ اگر ہم بازی لے جائیں تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا ؟ کہا کیوں نہیں؟ میں تو تمہیں اپنا خاص درباری بنا لوں گا ۔ ادھر سے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تبلیغ شروع کی کہ دیکھو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ورنہ شامت اعمال برباد کر دے گی ۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاک نہ جھونکو کہ درحقیقت کچھ نہ ہو اور تم اپنے جادو سے بہت کچھ دکھا دو ۔ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں جو فی الواقع کسی چیز کو پیدا کر سکے ۔ یاد رکھو ایسے جھوٹے بہتانی لوگ فلاح نہیں پاتے ۔ یہ سن کر ان میں آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ بعض تو سمجھ گئے اور کہنے لگے یہ کلام جادوگروں کا نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کے رسول ہیں ۔ بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں مقابلہ کرو ۔ یہ باتیں بہت ہی احتیاط اور راز سے کی گئیں ۔ ( ان ھذن ) کی دوسری قرأت ( ان ھذین ) بھی ہے مطلب اور معنی دونوں قرأت وں کا ایک ہی ہے ۔ اب با آواز بلند کہنے لگے کہ یہ دونوں بھائی سیانے اور پہنچے ہوئے جادوگر ہیں ۔ اس وقت تک تو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہے بادشاہ کا قرب نصیب ہے مال و دولت قدموں تلے لوٹ رہا ہے لیکن آج اگر یہ بازی لے گئے تو ظاہر ہے کہ ریاست ان ہی کی ہو جائے گی تمہیں ملک سے نکال دیں گے عوام ان کے ماتحت ہو جائیں گے ان کا زور بند بندھ جائے گا یہ بادشاہت چھین لیں گے اور ساتھ ہی تمہارے مذہب کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔ بادشاہت عیش و آرام سب چیزیں تم سے چھن جائیں گی ۔ شرافت عقلمندی ریاست سب ان کے قبضے میں آ جائے گی تم یونہی بھٹے بھونتے رہ جاؤ گے ۔ تمہارے اشراف ذلیل ہو جائیں گے امیر فقیر بن جائیں گے ساری رونق اور بہار جاتی رہے گی ۔ بنی اسرائیل جو تمہارے لونڈی غلام بنے ہوئے ہیں یہ سب ان کے ساتھ ہو جائیں گے اور تمہاری حکومت پاش پاش ہو جائے گی ۔ تم سب اتفاق کر لو ۔ ان کے مقابلے میں صف بندی کر کے اپنا کوئی فن باقی نہ رکھو جی کھول کر ہوشیاری اور دانائی سے اپنے جادو کے زور سے اسے دبا لو ۔ ایک ہی دفعہ ہر استاد اپنی کاری گری دکھا دے تاکہ میدان ہمارے جادو سے پر ہو جائے دیکھو اگر وہ جیت گیا تو یہ ریاست اسی کی ہو جائے گی اور اگر ہم غالب آ گئے تو تم سن چکے ہو کہ بادشاہ ہمیں اپنا مقرب اور دربار خاص کے اراکین بنا دے گا ۔