سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :32
فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کے فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے ۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اسے لے آئیں ۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں ۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے ۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا ، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا ( ملاحظہ ہو سورۂ ہو سورۂ شعراء رکوع 3 ) ۔
اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مصر کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا ۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے ، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے ، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی ، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی ، دونوں کے عملی طریقے اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا ( ملاحظہ ہو Toynbee کی A Study of History صفحہ 31 ۔ 32 ) ۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نوبت ایک توحیدی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے ۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صدی حصہ تھے ۔ اس کے علاوہ اس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمیں وفس یا اَخناتون ( 1377 ق م 1360 ق م ) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا ، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتون باقی رکھا گیا تھا ۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے الٹ دیا گیا ، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا ۔ ان حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کی وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی ۔