Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
وَلَقَدۡ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِىۡ فَاضۡرِبۡ لَهُمۡ طَرِيۡقًا فِى الۡبَحۡرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخۡشٰى‏ ﴿77﴾
ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنالے پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر ۔
و لقد اوحينا الى موسى ان اسر بعبادي فاضرب لهم طريقا في البحر يبسا لا تخف دركا و لا تخشى
And We had inspired to Moses, "Travel by night with My servants and strike for them a dry path through the sea; you will not fear being overtaken [by Pharaoh] nor be afraid [of drowning]."
Hum ney musa ( alh-e-salam ) ki taraf wahee nazil faramee kay tu raton raat meray bandon ko ley chal aur inn kay liye darya mein khushk raasta bana ley phir na tujhay kissi kay aa pakarney ka khatra hoga na darr.
اور ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی کہ : تم میرے بندوں کو لے کر راتوں رات روانہ ہوجاؤ ( ٢٨ ) پھر ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ اس طرح نکال لینا کہ نہ تمہیں ( دشمن کے ) آپکڑنے کا اندیشہ رہے ، اور نہ کوئی اور خوف ہو ( ٢٩ )
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو وحی کی ( ف۱۰۵ ) کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل ( ف۱۰٦ ) اور ان کے لیے دریا میں سوکھا راستہ نکال دے ( ف۱۰۷ ) تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون آلے اور نہ خطرہ ( ف۱۰۸ )
ہم 52 نے موسی ( علیہ السلام ) پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ ، اور ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنالے 53 ، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ ﴿سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے﴾ ڈر لگے ۔
اور بیشک ہم نے موسٰی ( علیہ السلام ) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ ، سو ان کے لئے دریا میں ( اپنا عصا مار کر ) خشک راستہ بنا لو ، نہ ( فرعون کے ) آپکڑنے کا خوف کرو اور نہ ( غرق ہونے کا ) اندیشہ رکھو
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :52 بیچ میں ان حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ قیام میں پیش آئے ۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع 15 ۔ 16 ، سورۂ یونس رکوع 9 ، سورۂ مومن رکوع 3 تا 5 ، اور سورۂ زخرف رکوع 5 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :53 اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو ( جن کے لیے میرے بندوں ‘’ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے ) مصر کے ہر حصے سے ہجرت کے لیے نکل پڑنا تھا ۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے ۔ اس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی ۔ بحر احمر سے بحر روم ( میڈیٹرینین ) تک کا پورا علاقہ کھلا ہوا تھا ۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا ۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا کی طرف نکل جائیں ۔ لیکن ادھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا ۔ سورۂ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھر چکا تھا ۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ : اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ ، اپنا عصا سمندر پر مار : فَاَنْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ، فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا ۔ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نکل آیا ، بلکہ بیچ کا یہ حصہ ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا ۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا ۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہو جاتا ، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ 47 ) ۔
بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب ۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بےخبری میں تمام بنی اسرائیل کوچپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا ۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچے فرعونی ہیں ۔ آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے ۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور ومعروف ہے ٫نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے اسی آیت ( وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى 54؀ۚ ) 53- النجم:54 ) ہے یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی ۔ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔