Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
وَمَاۤ اَعۡجَلَكَ عَنۡ قَوۡمِكَ يٰمُوۡسٰى‏ ﴿83﴾
اے موسٰی! تجھے اپنی قوم سے ( غافل کرکے ) کون سی چیز جلدی لے آئی؟
و ما اعجلك عن قومك يموسى
[ Allah ] said, "And what made you hasten from your people, O Moses?"
Aey musa! Tujhay apni qom say ( ghafil kerkay ) kaun si cheez jaldi ley aaee?
اور ( جب موسیٰ کوہ طور پر اپنے لوگوں سے پہلے چلے آئے تو اللہ نے ان سے کہا ) موسیٰ ! تم اپنی قوم سے پہلے جلدی کیوں آگئے ؟ ( ٣١ )
اور تو نے اپنی قوم سے کیوں جلدی کی اے موسیٰ ( ف۱۱۹ )
61 اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسی ( علیہ السلام ) ؟ 62
اور اے موسٰی! تم نے اپنی قوم سے ( پہلے طور پر آجانے میں ) جلدی کیوں کی
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :61 یہاں سے سلسلہ بیان اس واقعہ کے ساتھ جڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے ۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھہرو ، اور چالیس دن کی مدت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :62 اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر حضرت موسیٰ اپنے رب کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے ۔ طور کی جانب ایمن میں ، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا ، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی ۔ اس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورہ اعراف رکوع 17 میں درج ہیں ۔ حضرت موسیٰ کا دیدار الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بیہوش ہو کر گر پڑنا ، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا ، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں ۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے ۔ اس کے بیان سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جایا کرتے ہیں ۔
بنی اسرائیل کا دریا پار جانا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے موسیٰ ہمارے لئے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کردیجئے ۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا ۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہو گئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا ۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی ۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں ۔ موسی علیہ السلام کے بعد پھر شرک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے ( وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ ١٤٥؁ ) 7- الاعراف:145 ) یعنی ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں ۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا ۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا ۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک وانعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا ۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چنانچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیز گاری کے پھینک دئیے ۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارون علیہ السلام نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ علیہ السلام آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے ۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آوازبھی نکلے چنانچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہو گیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا ۔ حضرت ہارون علیہ السلام ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا ۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے ۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا ۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی ۔ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے ۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں ۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی ۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا ۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں ۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی ۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا ۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کر لیا ۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا ۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو تو قتل کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں؟