Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ وَلَا يُحِيۡطُوۡنَ بِهٖ عِلۡمًا‏ ﴿110﴾
جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔
يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم و لا يحيطون به علما
Allah knows what is [presently] before them and what will be after them, but they do not encompass it in knowledge.
Jo kuch inn kay aagay peechay hai ussay Allah hi janta hai makhlooq ka ilm uss per hawi nahi hosakta.
وہ لوگوں کی ساری اگلی پچھلی باتوں کو جانتا ہے ، اور وہ اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ( ف۱٦٦ ) اور ان کا علم اسے نہیں گھیر سکتا ( ف۱٦۷ )
وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے 86 ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ان ( سب چیزوں ) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ ( اپنے ) علم سے اس ( کے علم ) کا احاطہ نہیں کرسکتے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :86 یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے ۔ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے ، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے ۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں ۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے ۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیاناس کر کے رکھ دے گا ۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا ، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے ، درآنحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں ۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور ، نافرض شناس ، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے ، میں اس کے کرتوتوں سے واقف ہوں ، اس لیے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں ۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے ۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا ۔ نیک بندے ، جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے ، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے ، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے ۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ وہ مناسب اور مبنی برحق ہو ، جیسا کہ : وَقَالَ صَوَاباً ( اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربانی صاف بتا رہا ہے ۔ بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سر فراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے ۔