Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
وَكَذٰلِكَ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِيۡهِ مِنَ الۡوَعِيۡدِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ اَوۡ يُحۡدِثُ لَهُمۡ ذِكۡرًا‏ ﴿113﴾
اسی طرح ہم نے تجھ پر عربی قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیزگار بن جائیں یا ان کے دل میں سوچ سمجھ تو پیدا کرے ۔
و كذلك انزلنه قرانا عربيا و صرفنا فيه من الوعيد لعلهم يتقون او يحدث لهم ذكرا
And thus We have sent it down as an Arabic Qur'an and have diversified therein the warnings that perhaps they will avoid [sin] or it would cause them remembrance.
Issi tarah hum ney tujh per arabi quran nazil farmaya hai aur tarah tarah say iss mein darr ka biyan sunaya hai takay log perhezgaar bann jayen ya inn kay dil mein soch samajh to peda keray.
اور ہم نے اسی طرح یہ وحی ایک عربی قرآن کی شکل میں نازل کی ہے ، اور اس میں تنبیہات کو طرح طرح سے بیان کیا ہے ، تاکہ لوگ پرہیزگاری اختیار کریں ، یا یہ قرآن ان میں کچھ سوچ سمجھ پیدا کرے ۔
اور یونہی ہم نے اسے عربی قرآن اتارا اور اس میں طرح طرح سے عذاب کے وعدے دیے ( ف۱۷۱ ) کہ کہیں انھیں ڈر ہو یا ان کے دل میں کچھ سوچ پیدا کرے ( ف۱۷۲ )
اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، اسی طرح ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر نازل کیا ہے 88 اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہوش کے آثار اس کی بدولت پیدا ہوں ۔ 89
اور اسی طرح ہم نے اس ( آخری وحی ) کو عربی زبان میں ( بشکلِ ) قرآن اتارا ہے اور ہم نے اس میں ( عذاب سے ) ڈرانے کی باتیں بار بار ( مختلف طریقوں سے ) بیان کی ہیں تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں یا ( یہ قرآن ) ان ( کے دلوں ) میں یادِ ( آخرت یا قبولِ نصیحت کا جذبہ ) پیدا کردے
سوْرَةُ طٰهٰ حاشیہ نمبر :88 یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز ۔ اس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور اس کا سلسلہ بیان ان آیات سے ملتا جلتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سورہ اور پھر قصۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ’‘ تذکرہ جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، اور وہ ذکر جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے ، اس شان کا تذکرہ اور ذکر ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :89 یعنی اپنی غفلت سے چونکیں ، بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں ، اور ان کو کچھ اس امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے ۔
وعدہ حق وعید حق ۔ چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک بد اعمال کا بدلہ ملناہی ہے ، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پرلوگوں کو ڈرایا طرح طرح سے ڈراوے سنائے ۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غور و فکر نصیحت و پند پیدا ہو اطاعت کی طرف جھک جائیں نیک کاموں کی کوشیش میں لگ جائیں ۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے وہ خود حق ہے اس کا وعدہ حق ہے اس کی وعید حق ہے اس کے رسول حق ہیں جنت دوزخ حق ہے اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسرعدل وحق ہے ۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگأہ کئے بغیر کسی کو سزا دے وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ جب ہماری وحی اتر رہی ہو اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو پہلے پوری طرح سن لیا کرو ۔ جیسے سورۃ قیامہ میں فرمایا ( لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ 16؀ۭ ) 75- القيامة:16 ) یعنی جلدی کر کے بھول جانیکے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو ۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے ۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ پہلے آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی جب یہ آیت اتری آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الٰہی جتنی نازل ہو گی مجھے یاد ہوجایا کرے گی ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو ۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے ۔ حدیث میں ہے کہ وحی برابر پے درپے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے اس دن بھی بکثرت وحی اتری ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے ( اللہم انفعنی بما علمتنی وعلمنی ما ینفعنی وزدنی علما والحمدللہ علی کل حال ) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور آخر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں واعوذ باللہ من حال اہل النار ۔