Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَقُلۡنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوۡجِكَ فَلَا يُخۡرِجَنَّكُمَا مِنَ الۡجَـنَّةِ فَتَشۡقٰى‏ ﴿117﴾
تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے ( خیال رکھنا ) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے ۔
فقلنا يادم ان هذا عدو لك و لزوجك فلا يخرجنكما من الجنة فتشقى
So We said, "O Adam, indeed this is an enemy to you and to your wife. Then let him not remove you from Paradise so you would suffer.
To hum ney kaha aey adam! Yeh tera aur teri biwi ka dushman hai ( khayal rakhna ) aisa na ho kay woh tum dono ko jannat say nikalwa dey key tu musibat mein par jaye.
چنانچہ ہم نے کہا کہ : اے آدم ! یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ، لہذا ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے ، اور تم مشقت میں پڑجاؤ ۔ ( ٥٠ )
تو ہم نے فرمایا ، اے آدم! بیشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے ( ف۱۷٦ ) تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے ( ف۱۷۷ )
اس پر ہم نے آدم ( علیہ السلام ) 95 سے کہا کہ ” دیکھو ، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے 96 ، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے 97 اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ ۔
پھر ہم نے فرمایا: اے آدم! بیشک یہ ( شیطان ) تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ، سو یہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مشقت میں پڑ جاؤ گے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :95 یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا ، یعنی یہ کہ اس خاص درخت کا پھل نہ کھانا ۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہو چکا ہے ۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے ، اور کس طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :96 دشمنی کا مظاہرہ اسی وقت ہو چکا تھا ۔ آدم اور حوا علیہما السلام خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف یہ کہہ کر کیا ہے کہ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خلقْتَہ مِنْ طِیْنٍ ، میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ( اعراف ۔ آیت 12 ۔ ص ۔ آیت 76 ) ۔ اَرَاَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ ، ذرا دیکھ تو سہی یہ ہے وہ ہستی جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے :ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْناً ، اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے ؟ ( بنی اسرائیل ۔ آیات 61 ۔ 62 ) ۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا ، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے ، میں اسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ ۔ اعراف ، حجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورہ ’ص‘ میں بھی آ رہا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے ، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی ، بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سن چکے تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :97 اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکانے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں ۔