Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتۡكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيۡتَهَا‌ۚ وَكَذٰلِكَ الۡيَوۡمَ تُنۡسٰى‏ ﴿126﴾
۔ ( جواب ملے گا کہ ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے ۔
قال كذلك اتتك ايتنا فنسيتها و كذلك اليوم تنسى
[ Allah ] will say, "Thus did Our signs come to you, and you forgot them; and thus will you this Day be forgotten."
( jawab milay ga kay ) issi tarah hona chahye tha tu meri aaee hui aayaton ko bhool gaya to aaj tu bhi bhula diya jata hai.
اللہ کہے گا : اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں ، مگر تو نے انہیں بھلا دیا ۔ اور آج اسی طرح تجھے بھلا دیا جائے گا ۔
فرمائے گا یونہی تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تھیں ( ف۱۹۰ ) تو نے انھیں بھلادیا اور ایسے ہی آج تیری کوئی نہ لے گا ( ف۱۹۱ )
” اللہ تعالی فرمائے گا ” ہاں ، اسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں ، تو نے بھلا دیا تھا ۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے ۔ ” 107 ۔ ۔ ۔ ۔
ارشاد ہوگا: ایسا ہی ( ہوا کہ دنیا میں ) تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں پس تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تو ( بھی ) بھلا دیا جائے گا
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :107 قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے ۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ، تو اس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا ، اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے ، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے ۔ یعنی تجھے خوب نظر آ رہا ہے ۔ ( ق ۔ آیت 22 ) ۔ دوسری کیفیت یہ ہے : اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُؤسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَ آء ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ، سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اڑے جاتے ہیں ( ابراہیم ۔ آیت 43 ) ۔ تیسری کیفیت یہ ہے : وَنُخْرِجُ لَہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَاباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْراً ہ اِقْرأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً ہ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا ۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ( بنی اسرائیل ۔ آیات 13 ۔ 14 ) ۔ انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے جو آیت زیر بحث میں بیان ہوئی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامت اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے ، لیکن بس ان کی بینائی یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی ۔ باقی دوسری حیثیتوں سے انکا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو ، جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو ، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو ، اور اس کو کچھ نہ سوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے ۔ اسی کیفیت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ جس طرح تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے ۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا ، کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا ، اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی ۔