Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
فَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَقَبۡلَ غُرُوۡبِهَا‌ ۚ وَمِنۡ اٰنَآىٴِ الَّيۡلِ فَسَبِّحۡ وَاَطۡرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرۡضٰى‏ ﴿130﴾
پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے ۔
فاصبر على ما يقولون و سبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس و قبل غروبها و من انا اليل فسبح و اطراف النهار لعلك ترضى
So be patient over what they say and exalt [ Allah ] with praise of your Lord before the rising of the sun and before its setting; and during periods of the night [exalt Him] and at the ends of the day, that you may be satisfied.
Pus inn ki baton per sabar ker aur apney perwerdigar ki tasbeeh aur tareef biyan kerta reh sooraj nikalney say pehlay aur uss kay dobney say pehlay raat kay mukhtalif waqton mein bhi aur din kay hisson mein bhi tasbeeh kerta reh boht mumkin hai kay tu razi ho jaye.
لہذا ( اے پیغمبر ) یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ، تم ان پر صبر کرو ، اور سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے رہو ، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو ، اور دن کے کناروں میں بھی ، تاکہ تم خوش ہوجاؤ ۔ ( ٥٦ )
تو ان کی باتوں پر صبر کرو اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے ( ف۱۹۸ ) اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ( ف۱۹۹ ) اور رات کی گھڑیوں میں اس کی پاکی بولو ( ف۲۰۰ ) اور دن کے کناروں پر ( ف۲۰۱ ) اس امید پر کہ تم راضی ہو ( ف۲۰۲ )
پس اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو ، اور اپنےرب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے ، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی ، 111 شاید کہ تم راضی ہو جاؤ ۔ 112
پس آپ ان کی ( دل آزار ) باتوں پر صبر فرمایا کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں طلوعِ آفتاب سے پہلے ( نمازِ فجر میں ) اور اس کے غروب سے قبل ( نمازِ عصر میں ) ، اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں ( یعنی مغرب اور عشاء میں ) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی ( نمازِ ظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے ، ( اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ اس لئے ہے ) تاکہ آپ راضی ہو جائیں
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :111 یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا ، اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے ، اس لیے اس کی دی ہوئی اس مہلت کے دوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و ترش باتیں سنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا ۔ اس تحمل و برداشت اور اس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں ان اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ۔ رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرنے سے مراد نماز ہے ، جیسا کہ آگے چل کر خود فرما دیا : وَأمُرْ اَھْلَکَ بَالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ، اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو ۔ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے ۔ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز ۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز ۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز ۔ رہے دن کے کنارے ، تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں ۔ ایک کنارہ صبح ہے ، دوسرا کنارہ زوال آفتاب ، اور تیسرا کنارہ شام ۔ لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر ، ظہر اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے ۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ۔ ہود ، حاشیہ 113 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 91 تا 97 ، جلد سوم ، الروم حاشیہ 24 ۔ جلد چہارم ، المومن ۔ حاشیہ 74 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :112 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں ، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو بھی سزا نہیں دی جائے گی ، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو ، اس کا نتیجہ وہ کچھ سامنے آئے گا جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا ۔ یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے ۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا : عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْموْداً ، توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر پہنچا دے گا آیت 79 ۔ اور سورہ ضحٰی میں فرمایا : وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ ہ وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ، تمہارے لیے بعد کا دور یقیناً پہلے دور سے بہتر ہے ، اور عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔