Surah

Information

Surah # 20 | Verses: 135 | Ruku: 8 | Sajdah: 0 | Chronological # 45 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 130 and 131, from Madina
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ‌ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى‏ ﴿131﴾
اور اپنی نگاہیں ہرگز چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمالیں تیرے رب کا دیا ہوا ہی ( بہت ) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے ۔
و لا تمدن عينيك الى ما متعنا به ازواجا منهم زهرة الحيوة الدنيا لنفتنهم فيه و رزق ربك خير و ابقى
And do not extend your eyes toward that by which We have given enjoyment to [some] categories of them, [its being but] the splendor of worldly life by which We test them. And the provision of your Lord is better and more enduring.
Aur apni nighayen hergiz unn cheezon ki taraf na dorana jo hum ney inn mein say mukhtalif logon ko aaraeesh-e-duniya ki dey rakhi hain takay unhen iss mein aazma ley teray rab ka diya hua hi ( boht ) behtar aur boht baqi rehney wala hai.
اور دنیوی زندگی کی اس بہار کی طرف آنکھیں اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان ( کافروں ) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہے ، تاکہ ہم ان کو اس کے ذریعے آزمائیں ۔ اور تمہارے رب کا رزق سب سے بہتر اور سب سے زیادہ دیرپا ہے ۔
اور اے سننے والے اپنی آنکھیں نہ پھیلا اس کی طرف جو ہم نے کافروں کے جوڑوں کو برتنے کے لیے دی ہے جتنی دنیا کی تازگی ( ف۲۰۳ ) کہ ہم انھیں اس کے سبب فتنہ میں ڈالیں ( ف۲۰٤ ) اور تیرے رب کا رزق ( ف۲۰۵ ) سب سے اچھا اور سب سے دیرپا ہے ،
اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے ۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے ، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال 113 ہی بہتر اور پائندہ تر ہے ۔
اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے ( کافر دنیاداروں کے ) بعض طبقات کو ( عارضی ) لطف اندوزی کے لئے دے رکھی ہیں تاکہ ہم ان ( ہی چیزوں ) میں ان کے لئے فتنہ پیدا کر دیں ، اور آپ کے رب کی ( اخروی ) عطا بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :113 رزق کا ترجمہ ہم نے رزق حلال کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو رزق رب سے تعبیر نہیں فرمایا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہل ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہر چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں ، اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو ۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابل رشک نہیں ہے ۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو ، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے ۔
شکریا تکبر؟ ان کفار کی دنیوی زینت اور ان کی ٹیپ ٹاپ کو تو حسرت بھری نگاہوں سے نہ دیکھ ، یہ توذرا سی دیر کی چیزیں ہیں ۔ یہ صرف ان آزمائش کے لئے انہیں یہاں ملی ہیں کہ دیکھیں شکر وتواضع کرتے ہیں یا ناشکری اور تکبر کرتے ہیں؟ حقیقتاشکر گزاروں کی کمی ہے ۔ ان کے مالداروں کو جو کچھ ملا ہے اس سے تجھے توبہت ہی بہتر نعمت ملی ہے ۔ ہم نے تجھے سات آیتیں دی ہیں جو دوہرائی جاتی ہیں اور قرآن عظیم عطافرمارکھا ہے پس اپنی نظریں ان کے دنیوی سازوسامان کی طرف نہ ڈال ۔ اسی طرح اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اللہ کے پاس جو مہمانداری ہے اس کی نہ توکوئی انتہا ہے اور نہ اس وقت کوئی اس کے بیان کی طاقت رکھتا ہے ۔ تجھے تیرا پرورگار اس قدر دے گا کہ تو راضی رضامند ہوجائے گا ۔ اللہ کی دین بہتر اور باقی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلا کیا تھا اور ایک بالاخانے میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ ایک کھردرے بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں چمڑے کا ایک ٹکڑا ایک طرف رکھا تھا اور کچھ مشکیں لٹک رہی تھیں ۔ یہ بےسروسامانی کی حالت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیوں رو دیے ؟ جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیصروکسریٰ کس قدر عیش وعشرت میں ہے اور آپ باوجود ساری مخلوق میں سے اللہ کے برگزیدہ ہونے کے کس حالت میں ہیں؟ آپ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا اب تک تم شک میں ہی ہو؟ ان لوگوں کو اچھائیوں نے دنیا میں ہی جلدی کر لی ہے ۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم باوجود قدرت اور دسترس کے دنیا سے نہایت ہی بےرغبت تھے ۔ جو ہاتھ لگتا اسے راہ للہ دے دیتے اور اپنے لئے ایک پیسہ بھی نہ بچا رکھتے ۔ ابن ابی حاتم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ آپ نے فرمایا مجھے تو تم پر سب سے زیادہ خوف اس وقت کاہے کہ دنیا تمہارے قدموں میں اپنا تمام سازو سامان ڈال دے گی ۔ اپنی برکتیں تم پر الٹ دے گی ۔ الغرض کفار کو زینت کی زندگی ، اور دنیا صرف ان کی آزمائش کے لئے دی جاتی ہے ۔ اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کرو تاکہ وہ عذاب الٰہی سے بچ جائیں ، خود بھی پابندی کے ساتھ اس کی ادائیگی کرو ۔ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچالو ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ ہم تجھ سے رزق کے طالب نہیں ۔ نماز کی پابندی کرلو اللہ ایسی جگہ سے رزوی پہنچائے گا جو خواب خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے لئے چھٹکاراکردیتا ہے اور بےشان وگمان جگہ سے روزی پہنچاتا ہے ۔ تمام جنات اور انسان صرف عبادت الٰہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں رزاق اور زبردست قوتوں کے مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ فرماتا ہے ہم خود تمام مخلوق کے روزی رساں ہیں ہم تمیں طلب کی تکلیف نہیں دیتے ۔ حضرت ہشام کے والد صاحب جب امیر امراء کے مکانوں پر جاتے اور ان کا ٹھاٹھ دیکھتے تو واپس اپنے مکان پر آکر اسی آیت کی تلاوت فرماتے ۔ اور کہتے میرے کنبے والو نماز کی حفاظت کرو نماز کی پابندی کرو ۔ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تنگی ہوتی تو اپنے گھرکے سب لوگوں کو فرماتے اے میرے گھر والوں نمازیں پڑھو نمازیں قائم رکھو ۔ تمام انبیاء علیہ السلام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ اپنی ہر گھبراہٹ اور ہر کام کے وقت نماز شروع کردیتے ۔ ترمذی ابن ماجہ وغیرہ کی قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میری عبادت کے لئے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ امیری اور بےپرواہی سے پر کردوں گا ۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کردوں گا اور اگر تونے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دونگا اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا ۔ ابن ماجہ شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے اپنی تمام غور وفکر اور قصدوخیال کو اکٹھا کرکے آخرت کا خیال باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہو گیا اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کرلے گا ۔ اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں یہاں کے غم مول لئے اللہ کو اس کی مطلقا پرواہ نہ رہے گی خواہ کسی حیرانی میں ہلاک ہو جائے ۔ اور روایت میں ہے کہ دنیا کے غموں میں ہی اسی کی فکروں میں ہی مصروف ہوجانے والے کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پریشانیاں ڈال دے گا اور اس کی فقیری اس کی آنکھوں کے سامنے کردے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے اور جو دل کا مرکز آخرت کو بنا لے گا اپنی نیت وہی رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ہر کام کا اطمینان نصیب فرما دے گا اس کے دل کو سیر اور شیر بنا دے گا اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکروں میں آیا کرے گی ۔ پھر فرمایا دنیا وآخرت میں نیک انجام پرہیزگار لوگ ہی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ گویا ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں ۔ وہاں ہمارے سامنے ابن طاب کے باغ کی تر کھجوریں پیش کی گئی ہیں ۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ دنیا میں بھی انجام کے لحاظ سے ہمارا ہی پلہ گراں رہے گا اور بلندی اور اونچائی ہم کو ہی ملے گی اور ہمارا دین پاک صاف طیب وطاہر کامل ومکمل ہے ۔