Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا لٰعِبِيۡنَ‏ ﴿16﴾
ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا ۔
و ما خلقنا السماء و الارض و ما بينهما لعبين
And We did not create the heaven and earth and that between them in play.
Hum ney aasman-o-zamin aur inn kay darmiyan ki cheezon ko kheltay huye nahi banaya.
اور ہم نے آسمان ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، اس کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ ہم کوئی کھیل کرنا چاہتے ہوں ۔ ( ٦ )
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہ بنائے ( ف۲۹ )
ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے ۔ 15
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پر ( بے کار ) نہیں بنایا
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :15 یہ تبصرہ ہے ان کے اس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے ، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے ۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے ۔ چند روز کی بھلی بری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے ۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور برائی کی سزا ہو ۔ یہ خیال درحقیقت اس بات کا ہم معنی تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈڑے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے ۔ اور یہ خیال دعوت پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا اصل سبب تھا ۔
آسمان وزمین کوئی کھیل تماشہ نہیں آسمان و زمین کو اللہ تعالیٰ نے عدل سے پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا دے ۔ اس نے انہیں بیکار اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ اور آیت میں اس مضمون کے ساتھ ہی بیان ہے کہ یہ گمان تو کفار کا ہے جن کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے ۔ دوسری آیت کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اگر ہم کھیل تماشہ ہی چاہتے تو اسے بنالیتے ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اگر ہم عورت کرنا چاہتے ۔ لہو کے معنی اہل یمن کے نزدیک بیوی کے بھی آتے ہیں ۔ یعنی یہ دونوں معنے ہے اگر بیوی بنانا چاہتے تو حورعین میں سے جو ہمارے پاس ہے کسی کو بنا لیتے ۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر ہم اولاد چاہتے ۔ لیکن یہ دونوں معنی آپس میں لازم ملزوم ہیں ۔ بیوی کے ساتھ ہی اولاد ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) ، یعنی اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ اس کی اولاد ہو تو مخلوق میں کسی اعلیٰ درجے کی مخلوق کو یہ منصب عطا فرماتا لیکن وہ اس بات سے پاک اور بہت دور ہے ۔ اس کی توحید اور غلبہ کے خلاف ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ پس وہ مطلق اولاد سے پاک ہے نہ عیسیٰ اس کا بیٹا ہے نہ عزیر ۔ نہ فرشتے اس کی لڑکیاں ہیں ۔ ان عیسائیوں یہودیوں اور کفار مکہ کی لغویات اور تہمت سے اللہ واحد قہار پاک ہے اور بلند ہے ۔ آیت ( ان کنا فاعلین ) میں ان کو نافیہ کہا گیا ہے یعنی ہم یہ کرنے والے ہی نہ تھے ۔ بلکہ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قرآن مجید میں ہر جگہ ان نفی کے لئے ہی ہے ۔ فرشتوں کا تذکرہ ہم حق کو واضح کرتے ہیں ، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے ، ٹوٹ کر چورا ہوجاتا ہے اور فورا ہٹ جاتا ہے ۔ وہ ہے بھی لائق ، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے ۔ اللہ کے لئے جو لوگ اولادیں ٹھیرا رہے ہیں ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لئے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے ۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو آسمان وزمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے ۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں ۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں نہ حضرت مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم ، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار ، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آرہاہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہوگا اور اپنا کیا بھرے گا ۔ یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں ، گھبراتے بھی نہیں ، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی ۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں اس کی عبادت میں اس کی تسبیح واطاعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں ۔ اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں تھے کہ فرمایا لوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو کچھ بھی نہیں سن رہے ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہے اس لئے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو ۔ عبداللہ حارث بن نوفل فرماتے ہیں میں حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا اللہ کا پیغام لے کر جانا عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا ؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہو کر آپ نے فرمایا یہ بچہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا بنوعبدالمطلب سے ہے آپ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لئے سانس لینا ۔ دیکھو چلتے پھرتے بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے ۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے ۔