Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَمَنۡ يَّقُلۡ مِنۡهُمۡ اِنِّىۡۤ اِلٰـهٌ مِّنۡ دُوۡنِهٖ فَذٰلِكَ نَجۡزِيۡهِ جَهَـنَّمَ‌ؕ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿29﴾
ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں لائق عبادت ہوں تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔
و من يقل منهم اني اله من دونه فذلك نجزيه جهنم كذلك نجزي الظلمين
And whoever of them should say, "Indeed, I am a god besides Him"- that one We would recompense with Hell. Thus do We recompense the wrongdoers.
Inn mein say agar koi bhi keh day kay Allah kay siwa mein laeeq-e-ibadat hun to hum ussay dozakh ki saza den hum zalimon ko issi tarah saza detay hain.
اور اگر ان میں سے کوئی ( بالفرض ) یہ کہے کہ : اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں ۔ تو اس کو ہم جہنم کی سزا دیں گے ۔ ایسے ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔
اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں ( ف۵۵ ) تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے ، ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ستمگاروں کو ،
اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں ۔ 27 اور جو ان میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں ، تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں ، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے ۔ ؏ 2
اور ان میں سے کون ہے جو کہہ دے کہ میں اس ( اﷲ ) کے سوا معبود ہوں سو ہم اسی کو دوزخ کی سزا دیں گے ، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیا کرتے ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :27 مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے ۔ ایک یہ کہ انکے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے ۔ دوسرے یہ کہ وہ انکی پرستش ( خوشامد ) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع ( سفارشی ) بنانا چاہتے تھے ۔ : وَیَقُوْلُوْ نَ ھٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِندَ اللہِ ( یونس ۔ آیت ۔ 18 ۔ اور مَانَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفاً ہ ( الزمر ۔ آیت 3 ) ۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے ۔ اس جگہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ اللہ تعالیٰ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو ان کے سامنے ہیں اور ان باتوں کو بھی جو ان سے اوجھل ہیں ۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ آخر ان کو سفارش کرنے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جب کہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لیے ٰوہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین ، ہر ایک کا اختیار شفاعت لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے ۔ بطور خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے ۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز جھکایا جائے اور دست سوال دراز کیا جائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 85 ۔ 86 )