Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَـتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا‌ ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ‌ ؕ اَفَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿30﴾
کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟
او لم ير الذين كفروا ان السموت و الارض كانتا رتقا ففتقنهما و جعلنا من الماء كل شيء حي افلا يؤمنون
Have those who disbelieved not considered that the heavens and the earth were a joined entity, and We separated them and made from water every living thing? Then will they not believe?
Kiya kafir logon ney yeh nahi dekha kay aasman-o-zamin ba-hum milay julay thay phir hum ney unhen juda kiya aur her zinda cheez ko hum ney pani say peda kiya kiya yeh log phir bhi eman nahi latay.
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، کیا انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ سارے آسمان اور زمین بند تھے ، پھر ہم نے انہیں کھول دیا ۔ ( ١٣ ) اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے ؟ ( ١٤ ) کیا پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے؟
کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انھیں کھولا ( ف۵٦ ) اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی ( ف۵۷ ) تو کیا وہ ایمان لائیں گے ،
کیا وہ لوگ جنہوں نے ﴿ نبی کی بات ماننے سے﴾ انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں جدا کیا ، 28 اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ۔ 29 کیا وہ ﴿ ہماری اس خلاقی کو ﴾ نہیں مانتے؟
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ( سب ) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا ، اور ہم نے ( زمین پر ) پیکرِ حیات ( کی زندگی ) کی نمود پانی سے کی ، تو کیا وہ ( قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی ) ایمان نہیں لاتے
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :28 اصل میں لفظ رتق اور فتق کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا ، اکٹھا ہونا ، ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا ، متصل اور متلاصق ہونا ۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں ۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے ( Mass ) کی سی تھی ، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم حٰمٓ السجدہ ، حاشیہ 13 ۔ 14 ۔ 15 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :29 اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سبب زندگی اور اصل حیات بنایا ، اسی میں اور اسی سے زندگی کا آغاز کیا ۔ دوسری جگہ اس مطلب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، : وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآءٍ ( النور ۔ آیت 45 ) اور خدا نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ۔
زبردست غالب اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے ۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو؟ ابتدا میں زمین وآسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے ۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا ۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی ۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی ۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری ، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے؟ ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین وآسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا زمین وآسمان سب ایک ساتھ تھے ، نہ بارش برستی تھی ، نہ پیداوار اگتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی ۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں ۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرات بڑھ گئی ہو؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا ۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں ۔ حضرت سعید رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے ۔ زمین وآسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ۔ زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے ۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں ۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں ۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں ۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی ۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں ۔ بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو ۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے ۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آسمان وزمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے ۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کاجڑاؤ ہو رہا ہے ۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے ۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے ۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے ۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے ۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے ۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا ۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں ۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگاجواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا ۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو ۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو ، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو ، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو ، سورج چاند کو دیکھو ۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے ۔ چاند کا نور الگ ہے ، فلک الگ ہے ، چال الگ ہے ، انداز اور ہے ۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے ۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والاہے ۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے ۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والاہے ۔