Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ‌ؕ كُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ ﴿33﴾
وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔
و هو الذي خلق اليل و النهار و الشمس و القمر كل في فلك يسبحون
And it is He who created the night and the day and the sun and the moon; all [heavenly bodies] in an orbit are swimming.
Wohi Allah hai jiss ney raat aur din aur sooraj aur chand ko peda kiya hai. Inn mein say her aik apney apney madaar mein tertay phirtay hain.
اور وہی ( اللہ ) ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کیے ، سب کسی نہ کسی مدار میں تیر رہے ہیں ۔ ( ١٧ )
اور وہی ہے جس نے بنائے رات ( ف٦۳ ) اور دن ( ف٦٤ ) اور سورج اور چاند ہر ایک ایک گھیرے میں پیر رہا ہے ( ف٦۵ )
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ 35
اور وہی ( اﷲ ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو ( بھی ) ، تمام ( آسمانی کرّے ) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :35 کُلٌّ اور یَسْبَحُوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ مراد صرف سورج اور چاند ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے اَجرام فلکی ، یعنی تارے بھی مراد ہیں ، ورنہ جمع کے بجائے تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ۔ فَلَکِ جو فارسی کے چرخ اور گردوں کا ٹھیک ہم معنی ہے ، عربی زبان میں آسمان کے معروف ناموں میں سے ہے ۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں سے دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب تارے ایک ہی فلک میں نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کا فلک الگ ہے ۔ دوسرے یہ کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں یہ تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو ، بلکہ وہ کوئی سیال شے ہے یا فضا اور خلا کی سی نوعیت کی چیز ہے جس میں ان تاروں کی حرکت تیرنے کے فعل سے مشابہت رکھتی ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، یٰسین ، حاشیہ 37 ) ۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان و زمین کے رتق و فتق ، اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جانے ، اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ، موجودہ زمانے میں طبعیات ( Physics ) ، حیاتیات ، ( Biology ) اور علم ہیئت ( Astronomy ) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیا ہے ، اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی ۔ بہرحال موجودہ زمانے کا انسان ان تینوں آیات کو بالکل اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ : وَلَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ِ سے لے کر کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ تک کی تقریر شرک کی تردید میں ہے ، اور اَوَلَمْ یَرَا لَّذِیْنَ کَفَرُوْ سے لے کر فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ تک جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں توحید کے لیے ایجابی ( Positive ) دلائل دیے گئے ہیں ۔ مدعا یہ ہے کہ یہ نظام کائنات جو تمہارے سامنے ہے ، کیا اس میں کہیں ایک اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کی بھی کوئی کاریگری تمہیں نظر آتی ہے ؟ کیا یہ نظام ایک سے زیادہ خداؤں کی کار فرمائی میں بن سکتا تھا اور اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا تھا ؟ کیا اس حکیمانہ نظام کے متعلق کوئی صاحب عقل و خرد آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ ایک کھلندڑے کا کھیل ہے اور اس نے محض تفریح کے لیے چند گرویاں بنائی ہیں جن سے کچھ مدت کھیل کر بس وہ یونہی ان کو خاک میں ملا دے گا ؟ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور پھر بھی نبی کی بات ماننے سے انکار کیے جاتے ہو؟ تم کو نظر نہیں آتا زمین و آسمان کی ایک ایک چیز اس نظریہ توحید کی شہادت دے رہی ہے جو یہ نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ؟ ان نشانیوں کے ہوتے تم کہتے ہوکہ : فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ ، یہ نبی کوئی نشانی لے کر آئے کیا نبی کی دعوت توحید کے حق ہونے پر گواہی دینے کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں ہیں ؟