Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَاِذَا رَاٰكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ يَّتَّخِذُوۡنَكَ اِلَّا هُزُوًا ؕ اَهٰذَا الَّذِىۡ يَذۡكُرُ اٰلِهَـتَكُمۡ‌ۚ وَهُمۡ بِذِكۡرِ الرَّحۡمٰنِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿36﴾
یہ منکرین تجھے جب بھی دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کہ کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا ہے اور وہ خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں ۔
و اذا راك الذين كفروا ان يتخذونك الا هزوا اهذا الذي يذكر الهتكم و هم بذكر الرحمن هم كفرون
And when those who disbelieve see you, [O Muhammad], they take you not except in ridicule, [saying], "Is this the one who insults your gods?" And they are, at the mention of the Most Merciful, disbelievers.
Yeh munkireen tujhay jab bhi dekhtay hain to tumhara mazaq hi uratay hain kay kiya yehi woh hai jo tumharay maboodon ka zikar buraee say kerta hai aur woh khud hi rehman ki yaad kay bilkul hi munkir hain.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے ، وہ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو اس کے سوا ان کا کوئی کام نہیں ہوتا کہ وہ تمہارا مذاق بنانے لگتے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کیا یہی صاحب ہیں جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتے ہیں؟ ( یعنی یہ کہتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ) حالانکہ ان ( کافروں ) کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن ہی کا ذکر کرنے سے انکار کیے بیٹھے ہیں ۔ ( ١٩ )
اور جب کافر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے مگر ٹھٹھا ( ف۷۱ ) کیا یہ ہیں وہ جو تمہارے خداؤں کو برا کہتے ہیں اور وہ ( ف۷۲ ) رحمن ہی کی یاد سے منکر ہیں ( ف۷۳ )
یہ منکرین حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں ۔ کہتے ہیں ” کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟ ” 39 اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمان کے ذکر سے منکر ہیں ۔ 40
اور جب کافر لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے محض تمسخر ہی کرنے لگتے ہیں ( اور کہتے ہیں: ) کیا یہی ہے وہ شخص جو تمہارے معبودوں کا ( ردّ و انکار کے ساتھ ) ذکر کرتا ہے؟ اور وہ خود ( خدائے ) رحمان کے ذکر سے انکاری ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :39 یعنی برائی کے ساتھ ان کا ذکر کرتا ہے ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے ، بلکہ مذاق اڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے ۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چست کرتے ہوں گے ۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کے خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :40 یعنی بتوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں ، مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سن کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں ۔
جلدباز انسان ابوجہل وغیرہ کفار قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی ہنسی مذاق شروع کردیتے اور آپ کی شان میں بے ادبی کرنے لگتے ۔ کہنے لگتے کہ لو میاں دیکھ لو ، یہی ہیں جو ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں ۔ اللہ کے منکر ، رسول اللہ کے منکر اور آیت میں ان کے اسی کفر کا بیان کرکے فرمایا گیا ہے آیت ( ان کاد لیضلناعن الہتنا ) ۔ یعنی وہ تو کہیے ہم جمے رہے ورنہ اس نے تو ہمیں ہمارے پرانے معبودوں سے برگشتہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔ خیر انہیں عذاب کے معائنہ سے معلوم ہوجائے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ انسان بڑا جلدباز ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کی پیدائش کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا شروع کیا شام کے قریب جب ان میں روح پھونکی گئی سر آنکھ اور زبان میں جب روح آگئی تو کہنے لگے الٰہی مغرب سے پہلے ہی میری پیدائش مکمل ہوجائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام دنوں میں بہتر وافضل دن جمعہ کا دن ہے اسی میں حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اسی میں جنت میں داخل ہوئے اسی میں وہاں سے اتارے گئے اسی میں قیامت قائم ہوگی اسی دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت جو بندہ نماز میں ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو کچھ طلب کرے اللہ اسے عطا فرماتا ہے آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کرکے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ ساعت کون سی ہے وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ پہلی آیت میں کافروں کی بدبختی کا ذکر کرکے اس کے بعد ہی انسانی عجلت کا ذکر اس حکمت سے ہے کہ گویا کافروں کی سرکشی سنتے ہی مسلمان کا انتقامی جذبہ بھرک اٹھتا ہے اور وہ جلد بدلہ لینا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانی جبلت میں جلدبازی ہے ۔ لیکن عادت الٰہی یہ ہے کہ وہ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھانے والا ہوں کہ عاصیوں پر کس طرح سختی ہوتی ہے ۔ میرے نبی کو مذاق میں اڑنے والوں کی کس طرح کھال ادھڑتی ہے تم ابھی دیکھ لوگے ۔ جلدی نہ مچاؤ دیر ہے اندھیر نہیں مہلت ہے بھول نہیں ۔