Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
بَلۡ مَتَّـعۡنَا هٰٓؤُلَاۤءِ وَ اٰبَآءَهُمۡ حَتّٰى طَالَ عَلَيۡهِمُ الۡعُمُرُ ‌ؕ اَفَلَا يَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِى الۡاَرۡضَ نَـنۡقُصُهَا مِنۡ اَطۡرَافِهَا ؕ‌ اَفَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ‏ ﴿44﴾
بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو زندگی کے سرو سامان دیئے یہاں تک کہ ان کی مدت عمر گزر گئی ۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ، اب کیا وہی غالب ہیں؟
بل متعنا هؤلاء و اباءهم حتى طال عليهم العمر افلا يرون انا ناتي الارض ننقصها من اطرافها افهم الغلبون
But, [on the contrary], We have provided good things for these [disbelievers] and their fathers until life was prolonged for them. Then do they not see that We set upon the land, reducing it from its borders? So it is they who will overcome?
Bulkay hum ney enhen aur inn kay baap dadon ko zindagi kay saro saman diye yahan tak kay unn ki muddat-e-umar guzar gaee. Kiya woh nahi dekhtay kay hum zamin ko iss kay kinaron say ghatatay chalay aarahey hain abb kiya wohi ghalib hain?keh dijiye! Mein to tumhen Allah ki wahee kay zariye aagah ker raha hun magar behray log baat nahi suntay jabkay unhen aagah kiya jaye.
بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے آباؤاجداد کو سامان عیش عطا کیا ، یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان پر ایک عمر گذر گئی ۔ ( ٢١ ) بھلا کیا انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو اس کے مختلف کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ۔ ( ٢٢ ) پھر کیا وہ غالب آجائیں گے؟
بلکہ ہم نے ان کو ( ف۸۷ ) اور ان کے باپ دادا کو برتاوا دیا ( ف۸۸ ) یہاں تک کہ زندگی ان پر دراز ہوئی ( ف۸۹ ) تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم ( ف۹۰ ) زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں ( ف۹۱ ) تو کیا یہ غالب ہوں گے ( ف۹۲ )
اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آبا و اجداد کو ہم زندگی کا سروسامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ ان کو دن لگ گئے ۔ 44 مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ 45 پھر کیا یہ غالب آجائیں گے؟ 46
بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو ( فراخئ عیش سے ) بہرہ مند فرمایا تھا یہاں تک کہ ان کی عمریں بھی دراز ہوتی گئیں ، تو کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم ( اب اسلامی فتوحات کے ذریعہ ان کے زیرِ تسلّط ) علاقوں کو تمام اَطراف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں ، تو کیا وہ ( اب ) غلبہ پانے والے ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :44 یعنی ہماری اس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں ۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لازوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہو گئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :45 یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 41 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو حاشیہ 60 ) ۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے ۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کار فرمائی کے یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں ، کبھی وبا کی شکل میں ، کبھی سیلاب کی شکل میں ، کبھی زلزلے کی شکل میں ، کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں ، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی آ جاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے ۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں ۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں ۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے ۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد 4 ، السجدہ ، حاشیہ 33 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :46 یعنی جبکہ ان کے تمام وسائل زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں ، جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں ، تو کیا یہ اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آ جائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں ؟ کیا یہ آثار ان کو یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑ نے والا نہیں ہے ۔
ذلت و رسوائی کے مارے لوگ کافروں کے کینہ کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتارہا ، لمبی لمبی عمریں ملیں ۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں ، اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں؟ اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ رعد میں ہم بیان کر آئے ہیں ۔ لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 27؀ ) 46- الأحقاف:27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمھیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے ہیں کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کردیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی امتوں کو اس نے ملیامیٹ کردیا اور اپنے مومنوں کو نجات دے دی کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں؟ نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں ، ذلیل ہیں ، رذلیل ہیں ، نقصان میں ہیں ، بربادی کے ماتحت ہیں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں ، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے ۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کردی ہیں ، جن کے دل ودماغ بند کر دیئے ہیں انہیں اللہ کی یہ باتیں سود مند نہیں پڑتیں ۔ بہروں کو آگاہ کرنا بیکار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں ۔ ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آجائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بےساختہ اپنے قصور کا اقرار کرلیتے ہیں ۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی ۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے ، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے ۔ اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سابھی ظلم نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لئے کافی ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہوجائے گا ۔ اور آیت میں فرمایا تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ 40؀ ) 4- النسآء:40 ) ، اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے ۔ حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں وہ اللہ اسے لائے گا وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے ۔ بخاری وسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو کلمے ہیں زبان پر ہلکے ہیں ، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہوگا پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے؟ میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ؟ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلم کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا تیرا کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے؟ وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں ۔ پروردگار عالم فرمائے گا کیوں نہیں؟ بیشک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا اب ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں ( اشہد ان لا الہ اللہ وان محمد الرسول اللہ ) لکھا ہوا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے پیش کرو ۔ وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا ؟ جناب باری فرمائے گا تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا ۔ یہ جھک جائے گا اور اونچے ہوجائیں گے اور اللہ رحمان ورحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہوگی ۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں روایت ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا ۔ ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہوگی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو ایک چیز اس کی ابھی باقی گئی ہے پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں لا الہ الا اللہ ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں ، میری خیانت بھی کرتے ہیں ، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں ۔ اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو توچھوٹ گیا ۔ نہ عذاب نہ ثواب ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کافضل وکرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا ۔ یہ سن کر وہ صحابی رونے لگے اور چیخنا شروع کردیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کیا ہوگیا ؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کردوں ۔ آپ گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں ۔