Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَـقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى وَهٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَضِيَآءً وَّذِكۡرًا لِّـلۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ ﴿48﴾
یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسیٰ و ہارون کو فیصلے کرنے والی نورانی اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت والی کتاب عطا فرمائی ہے ۔
و لقد اتينا موسى و هرون الفرقان و ضياء و ذكرا للمتقين
And We had already given Moses and Aaron the criterion and a light and a reminder for the righteous
Yeh bilkul sach hai kay hum ney musa-o-haroon ko faislay kerney wali noorani aur perhezgaron kay liye waaz-o-naseehat wali kitab ata farmaee hai.
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل کا ایک معیار ( ہدایت کی ) ایک روشنی اور ان متقی لوگوں کے لیے نصیحت کا سامان عطا کیا تھا ۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فیصلہ دیا ( ف۹۷ ) اور اجالا ( ف۹۸ ) اور پرہیزگاروں کو نصیحت ( ف۹۹ )
49 پہلے ہم موسی ( علیہ السلام ) اور ہارون ( علیہ السلام ) کو فرقان اور روشنی اور ” ذکر ” 50 عطا کر چکے ہیں ان متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے 51
اور بیشک ہم نے موسٰی اور ہارون ( علیہما السلام ) کو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے والی اور ( سراپا ) روشنی اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت ( پر مبنی کتاب تورات ) عطا فرمائی
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :49 یہاں سے انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں ۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں : اول یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے ، یہ نئی نرالی مخلوق نہ تھے ۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش نہیں آیا ہے کہ ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے ، جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر ہے ہیں ۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی ۔ سوم یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے ۔ بڑے بڑے مصائب سے وہ گزرے ہیں ۔ سالہا سال مصائب میں مبتلا رہے ہیں ۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی ، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے ۔ اس نے اپنے فضل و رحمت سے انکو نوازا ہے ، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے ، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے ، ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے ، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے ۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول بارگاہ ہونے کے باوجود ، اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود ، تھے وہ بندے اور بشر ہی ۔ الوہیت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی ۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی ۔ بیمار بھی وہ ہوتے تھے ۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے ۔ حتٰی کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :50 تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں ۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی ، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی ، اور وہ اولاد آدم کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :51 یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے ، مگر اس سے فائدہ عملاً وہی لوگ اٹھا سکتے تھے جو ان صفات سے متصف ہوں ۔
کتاب النور ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملاجلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ فرقان سے مراد کتاب یعنی تورات ہے جو حق وباطل حرام حلال میں فرق کرنے والی تھی ۔ اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی ۔ کل کو کل آسمانی کتابیں حق وباطل ہدایت وگمراہی بھلائی برائی حلال وحرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں ۔ ان سے دلوں میں نورانیت ، اعمال میں حقانیت ، اللہ کا خوف وخشیت ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ کتاب نصیحت وپند اور نور وروشنی ہے ۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے ہیں رہتے ہیں ۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت ( مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاۗءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِۨ 33؀ۙ ) 50-ق:33 ) جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے ۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں ۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے ۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟ ۔