Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَنَجَّيۡنٰهُ وَلُوۡطًا اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا لِلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿71﴾
اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی تھی ۔
و نجينه و لوطا الى الارض التي بركنا فيها للعلمين
And We delivered him and Lot to the land which We had blessed for the worlds.
Aur hum ibrahim aur loot ko bacha ker uss zamin ki taraf ley chalay jiss mein hum ney tamam jahan walon kay liye barkat rakhi thi.
اور ہم انہیں اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا جہان کے لوگوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں ۔ ( ٢٩ )
اور ہم اسے اور لوط کو ( ف۱۲٦ ) نجات بخشی ( ف۱۲۷ ) اس زمین کی طرف ( ف۱۲۸ ) جس میں ہم نے جہاں والوں کے لیے برکت رکھی ( ف۱۲۹ )
اور ہم اسے اور لوط ( علیہ السلام ) 63 کو بچا کر اس سر زمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں ۔ 64
اور ہم ابراہیم ( علیہ السلام ) کو اور لوط ( علیہ السلام ) کو ( جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے ) بچا کر ( عراق سے ) اس سرزمینِ ( شام ) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :63 بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ انکی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ہی ان پر ایمان لائے تھے ( ملاحظہ ہو آیت 26 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :64 یعنی شام و فلسطین کی سر زمین ۔ اس کی برکتیں مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے ۔ اور روحانی حیثیت سے وہ 2 ہزار برس تک انبیاء علیہم السلام کا مہبط رہی ہے ۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں ۔
ہجرت خلیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل کو کافروں کی آگ سے بچا کر شام کے مقدس ملک میں پہنچا دیا ۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمام میٹھا پانی شام کے صخرہ کے نیچے سے نکلتا ہے ۔ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ کو عراق کی سرزمین سے اللہ نے نجات دی اور شام کے ملک میں پہنچایا ۔ شام ہی نبیوں کا ہجرت کدہ رہا ۔ زمین میں سے جو گھٹتا ہے وہ شام میں بڑھتا ہے اور شام کی کمی فلسطین میں زیادتی ہوتی ہے ۔ شام ہی محشر کی سرزمین ہے ۔ یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ، یہیں دجال قتل کیا جائے گا ۔ بقول کعب آپ حران کی طرف گئے تھے ۔ یہاں آکر آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے بادشاہ کی لڑکی اپنی قوم کے دین سے بیزار ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے بلکہ ان کے اوپر طعنہ زنی کرتی ہے تو آپ نے ان سے اس قرار پر نکاح کرلیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہجرت کرکے یہاں سے نکل چلے انہی کا نام حضرت سارہ ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ یہ روایت غریب ہے اور مشہور یہ ہے کہ حضرت سارہ آپ کے چچا کی صاحبزادی تھیں ، اور آپ کے ساتھ ہجرت کرکے چلی آئی تھیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ ہجرت مکے شریف میں ختم ہوئی مکے ہی کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ یہ اللہ کا پہلا گھر ہے جو برکت وہدایت والا ہے ، جس میں علاوہ اور بہت سی نشانیوں کے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اس میں آجانے والا امن وسلامتی میں آجاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب کا عطیہ بھی کیا ۔ یعنی لڑکا اور پوتا جیسے فرمان ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71؀ ) 11-ھود:71 ) چونکہ خلیل اللہ علیہ السلام کے سوال میں ایک لڑکے ہی کی طلب تھی دعا کی تھی کہ آیت ( رب ہب لی من الصالحین ) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی اور لڑکے کے ہاں بھی لڑکا دیا جو سوال سے زائد تھا اور سب کو نیکو کاربنایا ۔ ان سب کو دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنادیا کہ بحکم الٰہی خلق اللہ کو راہ حق کی دعوت دیتے رہے ۔ ان کی طرف ہم نے نیک کاموں کی وحی فرمائی ۔ اس عام بات پر عطف ڈال کر پھر خاص باتیں یعنی نماز اور زکوٰۃ کا بیاں فرمایا ۔ اور ارشاد ہوا کہ وہ علاوہ ان نیک کاموں کے حکم کے خود بھی ان نیکیوں پر عامل تھے ۔ پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکرشروع ہوتا ہے ۔ لوط بن ہاران بن آزر علیہ السلام ۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آپ کی تابعداری میں آپ ہی کے ساتھ ہجرت کی تھی ۔ جیسے کلام اللہ شریف میں ہے آیت ( فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ 26؀ ) 29- العنكبوت:26 ) حضرت لوط علیہ السلام آپ پر ایمان لائے اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا اور وحی نازل فرمائی اور نبیوں کے پاک زمرے میں داخل کیا ۔ اور سدوم اور اس کے آس پاس کی بستیوں کی طرف آپ کو بھیجا ۔ انہوں نے نہ مانا مخالفت پر کمربستگی کرلی ۔ جس کے باعث عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور فناکردئیے گئے ، جن کی بربادی کے واقعات اللہ تعالیٰ کی کتاب عزیز میں کئی جگہ بیان ہوئے ہیں یہاں فرمایا کہ ہم نے انہیں بدترین کام کرنے والے فاسقوں کی بستی سے نجات دے دی اور چونکہ وہ اعلیٰ نیکوکار تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلیا ۔