Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَجَعَلۡنٰهُمۡ اَٮِٕمَّةً يَّهۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡهِمۡ فِعۡلَ الۡخَيۡرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيۡتَآءَ الزَّكٰوةِ‌ۚ وَكَانُوۡا لَـنَا عٰبِدِيۡنَ ۙ‌ۚ‏ ﴿73﴾
اور ہم نے انہیں پیشوا بنا دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نمازوں کے قائم رکھنے اور زکٰوۃ دینے کی وحی ( تلقین ) کی ، اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔
و جعلنهم اىمة يهدون بامرنا و اوحينا اليهم فعل الخيرت و اقام الصلوة و ايتاء الزكوة و كانوا لنا عبدين
And We made them leaders guiding by Our command. And We inspired to them the doing of good deeds, establishment of prayer, and giving of zakah; and they were worshippers of Us.
Aur hum ney unehn paishwa bana diya kay humaray hukum say logon ki rehbari keren aur hum ney unn ki taraf nek kaamon kay kerney aur namazon kay qaeem rakhney aur zakat denay ki wahee ( talqeen ) ki aur woh sab kay sab humaray ibadat guzaar banday thay.
اور ان سب کو ہم نے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے ، اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی ، اور وہ ہمارے عبادت گذار تھے ۔
اور ہم نے انھیں امام کیا کہ ( ف۱۳۱ ) ہمارے حکم سے بلاتے ہیں اور ہم نے انھیں وحی بھیجی اچھے کام کرنے اور نماز برپا رکھنے اور زکوٰة دینے کی اور وہ ہماری بندگی کرتے تھے ،
اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے ۔ اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوة دینے کی ہدایت کی ، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے ۔ 66
اور ہم نے انہیں ( انسانیت کا ) پیشوا بنایا وہ ( لوگوں کو ) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے ( کے احکام ) کی وحی بھیجی ، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :66 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے ۔ نمرود سے ان کی مڈ بھیڑ ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش ، بت پرستی کے خلاف ان کی جد و جہد ، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ ، اور بالآخر ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا ، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب پیدائش کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی ۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے ، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے ۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا ، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں ، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا ( باب 11 ۔ آیات 27 تا 32 ) ۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا ، سو تو باعث برکت ہو ، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ( باب 12 ۔ آیت 1 ۔ 3 ) ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی ۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں ۔ مگر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے ، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے ، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں ۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے ۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا ۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا ۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے ۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے ۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھتیجی تھیں ۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے ۔ پیدائش ۔ باب 11 ۔ آیت 29 ۔ اور باب 17 ۔ آیت 17 ) ۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے ۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں ۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی ، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا ۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی ۔ انہوں نے سخت جوابات دیے ۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے ۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں پھینک دیے گئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر ، حاران کو بھی پھینکا گیا ، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا ، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا ، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی ۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا ۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں نے دیکھا کہ اندر اطمینان سے ٹہل رہے ہیں ، نمرود کو اس معاملے کی الطاع دی گئی ۔ اس نے آکر جب خود اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھ لیا تو پکار کر کہا کہ آسمانی خدا کے بندے ، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا ۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے ۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا ۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام دو سال تک وہاں رہے ۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا ، اسے قتل کرا دے ۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے ، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام ، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی ۔ وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے ۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا ۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا ۔ ( منتخبات تلمود از ایچ پولونو ، لندن ۔ صفحہ 30 تا 42 ۔ ) ۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟