Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَلَمَّا بَرَزُوۡا لِجَـالُوۡتَ وَجُنُوۡدِهٖ قَالُوۡا رَبَّنَآ اَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرًا وَّثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَى الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِيۡنَؕ‏ ﴿250﴾
جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار ہمیں صبر دے ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما ۔
و لما برزوا لجالوت و جنوده قالوا ربنا افرغ علينا صبرا و ثبت اقدامنا و انصرنا على القوم الكفرين
And when they went forth to [face] Goliath and his soldiers, they said, "Our Lord, pour upon us patience and plant firmly our feet and give us victory over the disbelieving people."
Jab unn ka jaloot aur uss kay lashkar say muqabla hua to unhon ney dua maangi kay aey perwerdigar humen sabar dey sabit qadmi dey aur qom-e-kuffaar per humari madad farma.
اور جب یہ لوگ جالوت اور اس کے لشکروں کے آمنے سامنے ہوئے تو انہوں نے کہا : اے ہمارے پروردگار صبر و استقلال کی صفت ہم پر انڈیل دے ، ہمیں ثابت قدمی بخش دے ، اور ہمیں اس کافر قوم کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا فرمادے ۔
پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے پاؤں جمے رکھ کافر لوگوں پر ہماری مدد کر ،
اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے ، تو انہوں نے دعا کی: اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر ، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر ۔
اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابل ہوئے تو عرض کرنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر میں وسعت ارزانی فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما
جالوت مارا گیا یعنی جس وقت مسلمانوں کی اس مختصر جماعت نے کفار کے ٹڈی دل لشکر دیکھے تو جناب باری میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے اللہ ہمیں صبر و ثبات کا پہاڑ بنا دے ۔ لڑائی کے وقت ہمارے قدم جما دے ، منہ موڑنے اور بھاگنے سے ہمیں بچا لے اور ان دشمنوں پر ہمیں غالب کر ، چنانچہ ان کی عاجزانہ اور مخلصانہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اللہ کی مدد نازل ہوتی ہے اور یہ مٹھی بھر جماعت اس ٹڈی دل لشکر کو تہس نہس کر دیتی ہے اور حضرت داؤد کے ہاتھوں مخالفین کا سردار اور سرتاج جالوت مارا جاتا ہے ، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت طالوت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم جالوت کو قتل کرو گے تو میں اپنی بیٹی تمہارے نکاح میں دوں گا اور اپنا آدھا مال بھی تمہیں دے دوں گا اور حکومت میں بھی برابر شریک کر لوں گا ، چنانچہ حضرت داؤد نے پتھر کو فلاخن میں رکھ کر جالوت پر چلایا اور اسی سے وہ مارا گیا ، حضرت جالوت نے اپنا وعدہ پورا کیا ، بالآخر سلطنت کے مستقل سلطان آپ ہی ہو گئے اور پروردگار عالم کی طرف سے بھی نبوت جیسی زبردست نعمت عطا ہوئی اور حضرت شموئیل کے بعد یہ پیغمبر بھی بنے اور بادشاہ بھی ، حکمت سے مراد نبوت ہے اور بہت سے مخصوص علم بھی جو اللہ عزوجل نے چاہے اپنے اس نبی کو سکھائے ۔ پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں کی پستی نہ بدلتا جس طرح بنی اسرائیل کو طالوت جیسے مدبر بادشاہ اور داؤد جیسے دلیر سپہ سالار عطا فرما کر حکومت تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک ہو جاتے جیسے اور جگہ ہے آیت ( ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا ) یعنی یوں اگر ایک دوسرے کے دفیعہ نہ ہو تو عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بہ کثرت ذِکر کیا جاتا ہے توڑ دی جائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک نیک بخت ایماندار کی وجہ سے اس کے آس پاس کے سو سو گھرانوں سے اللہ تعالیٰ بلاؤں کو دور کر دیتا ہے ۔ پھر راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ابن جریر ) لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے ، ابن جریر کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سچے مسلمان کی صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد کی اولاد کو اس کے گھر والوں کو اور سنوار دیتا ہے اور اس کی موجودگی تک وہ سب اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں ، ابن مردویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ساٹھ شخص تم میں ضرور ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی اور تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہیں روزی دی جائے گی ۔ ابن مردویہ کی دوسری حدیث میں ہے میری امت میں تیس ابدال ہوں گے جن کی وجہ سے تم روزیاں دئیے جاؤ گے ، تم پر بارش برسائی جائے گی اور تمہاری مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کے راوی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے حضرت حسن بھی انہیں ابدال میں سے تھے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اور اس کا احسان ہے کہ وہ ایک کو دوسرے سے دفع کرتا ہے ، وہی سچا حاکم ہے ، اس کے تمام کام حکمت سے پر ہوتے ہیں ، وہ اپنی دلیلیں اپنے بندوں پر واضح فرما رہا ہے ۔ وہ تمام مخلوق پر فضل و کرم کرتا ہے ۔