Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَ ذَا النُّوۡنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّـقۡدِرَ عَلَيۡهِ فَنَادٰى فِى الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌ۖ  اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ ۖ ‌ۚ‏ ﴿87﴾
مچھلی والے ( حضرت یونس علیہ السلام ) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے ۔ بالا آخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا ۔
و ذا النون اذ ذهب مغاضبا فظن ان لن نقدر عليه فنادى في الظلمت ان لا اله الا انت سبحنك اني كنت من الظلمين
And [mention] the man of the fish, when he went off in anger and thought that We would not decree [anything] upon him. And he called out within the darknesses, "There is no deity except You; exalted are You. Indeed, I have been of the wrongdoers."
Machli walay ( hazrat younus alh-e-salam ) ko yaad kero! Jabkay woh gussay say chal diya aur khayal kiya kay hum ussay na pakar saken gay. Bil-aakhir woh andheron kay andar say pukar utha kay elahee teray siwa koi mabood nahi tu pak hai be-shak mein zalimon mein say tha.
اور مچھلی والے ( پیغمبر یعنی یونس علیہ السلام ) کو دیکھو ! جب وہ خفا ہو کر چل کھڑے ہوئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کی کوئی پکڑ نہیں کریں گے ۔ پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ : ( یا اللہ ! ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو ہر عیب سے پاک ہے ، بیشک میں قصور وار ہوں ۔ ( ٤٠ )
اور ذوالنون ، کو ( یاد کرو ) ( ف۱٤۹ ) جب چلا غصہ میں بھرا ( ف۱۵۰ ) تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے ( ف۱۵۱ ) تو اندھیریوں میں پکارا ( ف۱۵۲ ) کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو ، بیشک مجھ سے بےجا ہوا ( ف۱۵۳ )
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا ۔ 82 یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا 83 اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے ۔ 84 آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا ” 85 نہیں ہے کوئی خدا مگر تو ، پاک ہے تیری ذات ، بے شک میں نے قصور کیا ۔ ”
اور ذوالنون ( مچھلی کے پیٹ والے نبی علیہ السلام کو بھی یاد فرمائیے ) جب وہ ( اپنی قوم پر ) غضبناک ہو کر چل دیئے پس انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم ان پر ( اس سفر میں ) کوئی تنگی نہیں کریں گے پھر انہوں نے ( دریا ، رات اور مچھلی کے پیٹ کی تہہ در تہہ ) تاریکیوں میں ( پھنس کر ) پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے ، بیشک میں ہی ( اپنی جان پر ) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :82 مراد ہیں حضرت یونس علیہ السلام ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ذوالنون اور صاحب الحوت یعنی مچھلی والے کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔ مچھلی والا انہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے ، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا ، جیسا کہ سورہ صافات آیت 142 میں بیان ہوا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، یونس ، حواشی 98 تا 100 ۔ الصٰفّٰت ، حوشی 77 تا 85 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :83 یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور ان کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :84 انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر تو عذاب آنے والا ہے ، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تا کہ خود بھی عذاب میں نہ گھر جاؤں ۔ یہ بات بجائے خود تو قابل گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابل گرفت تھا ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا ، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید ۔
یونس علیہ السلام اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ صافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے ۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ 98؀ ) 10- یونس:98 ) یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کونفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی ۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکرطوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے ۔ قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کانکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا ۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے آیت ( فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ١٤١؀ۚ ) 37- الصافات:141 ) اب کہ حضرت یونس علیہ السلام خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے ۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کر گئی ۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا ۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں ۔ آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ Ċ۝ۧ ) 65- الطلاق:7 ) سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت ( فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ 12۝ۚ ) 54- القمر:12 ) بھی پیش کی جاسکتی ہے ۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں ۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے بارالٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے ۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی اسے سن کر فرشتوں نے کہابار الٰہا! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے ۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے ۔ تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تیئں یونس بن متع سے افضل کہے ۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے ۔ اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے ۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آوازہے ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑتھے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے ۔ استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا ۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیاکرتے ہیں ۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں ۔ خصوصا جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تھے ۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو ۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے ۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابو اسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87؀ښ ) 21- الأنبياء:87 ) سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے ۔ ابو سعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطافرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یاتمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے ۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں ۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابو سعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے ۔