Surah

Information

Surah # 21 | Verses: 112 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 73 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَاسۡتَجَبۡنَا لَهٗ وَوَهَبۡنَا لَهٗ يَحۡيٰى وَاَصۡلَحۡنَا لَهٗ زَوۡجَهٗ ‌ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا يُسٰرِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡـرٰتِ وَ يَدۡعُوۡنَـنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ‌ؕ وَكَانُوۡا لَنَا خٰشِعِيۡنَ‏ ﴿90﴾
ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اس یحیی ( علیہ السلام ) عطا فرمایا اور ان کی بیوی کو ان کے لئے درست کر دیا یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے ۔ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔
فاستجبنا له و وهبنا له يحيى و اصلحنا له زوجه انهم كانوا يسرعون في الخيرت و يدعوننا رغبا و رهبا و كانوا لنا خشعين
So We responded to him, and We gave to him John, and amended for him his wife. Indeed, they used to hasten to good deeds and supplicate Us in hope and fear, and they were to Us humbly submissive.
Hum ney uss ki dua ko qabool farma ker ussay yahya ( alh-e-salam ) ata farmaya aur unn ki biwi ko unn kay liye durust ker diya. Yeh buzrug log nek kaamon ki taraf jaldi kiya kertay thay aur humen lalach tama aur darr khof say pukartay thay. Aur humaray samney aajzi kerney walay thay.
چنانچہ ہم نے ان کی دعا قبول کی ، اور ان کو یحیی ( جیسا بیٹا ) عطا کیا ، اور ان کی خاطر ان کی بیوی کو اچھا کردیا ، ( ٤٢ ) یقینا یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے ، اور ہمیں شوق اور رعب کے عالم میں پکارا کرتے تھے ، اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے ۔
تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے ( ف۱۵۸ ) یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بی بی سنواری ( ف۱۵۹ ) بیشک وہ ( ف۱٦۰ ) بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے ، اور ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں ،
پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیی عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا ۔ 86 یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے ، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے ۔ 87
تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحیٰی ( علیہ السلام ) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو ( بھی ) درست ( قابلِ اولاد ) بنا دیا ۔ بیشک یہ ( سب ) نیکی کے کاموں ( کی انجام دہی ) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت ( کی کیفیتوں ) کے ساتھ پکارا کرتے تھے ، اور ہمارے حضور بڑے عجز و نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :86 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران آیات 37 تا 41 مع حواشی ۔ جلد سوم ، مریم ، آیات 2 تا 15 مع حواشی ۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے ۔ بہترین وارث تو تو ہی ہے ، یعنی تو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں ، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :87 اس سیاق و سباق میں انبیاء کا ذکر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہے اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے حضرت زکریا کے واقعے کا ذکر کرنے سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود کہ یہ سارے نبی محض بندے اور انسان تھے ، الوہیت کا ان میں شائبہ تک نہ تھا ۔ دوسروں کو اولاد بخشنے والے نہ تھے بلکہ خود اللہ کے آگے اولاد کے لیے ہاتھ پھیلانے والے تھے ۔ حضرت یونس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ایک نبی اولو العزم ہونے کے باوجود جب ان سے قصور سرزد ہوا تو انہیں پکڑ لیا گیا ۔ اور جب وہ اپنے رب کے آگے جھک گئے تو ان پر فضل بھی ایسا کیا گیا کہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال لائے گئے ۔ حضرت ایوب کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ نبی کا مبتلائے مصیبت ہونا کوئی نرالی بات نہیں ہے ، اور نبی بھی جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو خدا ہی کے آگے شفا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ۔ وہ دوسروں کو شفا دینے والا نہیں ، خدا سے شفا مانگنے والا ہوتا ہے ۔ پھر ان سب باتوں کے ساتھ ایک طرف یہ حقیقت بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ سارے انبیاء توحید کے قائل تھے ، اور اپنی حاجات ایک خدا کے سوا کسی کے سامنے نہ لے جاتے تھے ، اور دوسری طرف یہ بھی جتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غیر معمولی طور پر اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے ، آغاز میں خواہ کیسی ہی آزمائشوں سے ان کو سابقہ پیش آیا ہو مگر آخر کار ان کی دعائیں معجزانہ شان کے ساتھ پوری ہوئی ہیں ۔