Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ۘ مِنۡهُمۡ مَّنۡ كَلَّمَ اللّٰهُ‌ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجٰتٍ‌ؕ وَاٰتَيۡنَا عِيۡسَى ابۡنَ مَرۡيَمَ الۡبَيِّنٰتِ وَاَيَّدۡنٰهُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلَ الَّذِيۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡهُمُ الۡبَيِّنٰتُ وَلٰـكِنِ اخۡتَلَفُوۡا فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ كَفَرَ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا اقۡتَتَلُوۡا وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَفۡعَلُ مَا يُرِيۡدُ‏ ﴿253﴾
یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں ، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے ، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا ، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر ، اور اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔
تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض منهم من كلم الله و رفع بعضهم درجت و اتينا عيسى ابن مريم البينت و ايدنه بروح القدس و لو شاء الله ما اقتتل الذين من بعدهم من بعد ما جاءتهم البينت و لكن اختلفوا فمنهم من امن و منهم من كفر و لو شاء الله ما اقتتلوا و لكن الله يفعل ما يريد
Those messengers - some of them We caused to exceed others. Among them were those to whom Allah spoke, and He raised some of them in degree. And We gave Jesus, the Son of Mary, clear proofs, and We supported him with the Pure Spirit. If Allah had willed, those [generations] succeeding them would not have fought each other after the clear proofs had come to them. But they differed, and some of them believed and some of them disbelieved. And if Allah had willed, they would not have fought each other, but Allah does what He intends.
Yeh rasool hain jin mein say hum ney baaz ko baaz per fazilat di hai inn mein say baaz woh hain jin say Allah Taalaa ney baat cheet ki hai aur baaz kay darjay buland kiye hain aur hum ney essa bin marium ko moajzaat ata farmaye aur rooh-ul-qudus say unn ki taeed ki. Agar Allah Taalaa chahata to unn kay baad aaney walay apney pass daleel aajaney kay baad hegiz aapas mein laraee bhiraee na kertay lekin unn logon ney ikhtilaf kiya inn mein say baaz to momin huye aur baaz kafir aur agar Allah Taalaa chahata to yeh aapas mein na lartay lekin Allah Taalaa jo chahata hai kerta hai.
یہ پیغمبر جو ہم نے ( مخلوق کی اصلاح کے لیے ) بھیجے ہیں ، ان کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے ، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا ، اور ان میں سے بعض کو اس نے بدرجہا بلندی عطا کی ( ١٧٠ ) اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی نشانیاں دیں اور روح القدر سے ان کی مدد فرمائی ( ١٧١ ) اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے لوگ اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں نہ لڑتے ، لیکن انہوں نے خود اختلاف کیا ، چنانچہ ان میں سے کچھ وہ تھے جو ایمان لائے اور کچھ وہ جنہوں نے کفر اپنایا ۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے ، لیکن اللہ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے ( ١٧٢ )
یہ ( ف۵۱۳ ) رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ( ف۵۱٤ ) ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا ( ف۵۱۵ ) اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا ( ف۵۱٦ ) اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں ( ف۵۱۷ ) اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی ( ف۵۱۸ ) اور اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے آپس میں نہ لڑتے نہ اس کے کہ ان کے پاس کھلی نشانیاں آچکیں ( ف۵۱۹ ) لیکن وہ مختلف ہوگئے ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہوگیا ( ف۵۲۰ ) اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے مگر اللہ جو چاہے کرے ( ف۵۲۱ )
یہ رسول ﴿جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے﴾ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہمکلام ہوا ، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے ، اور آخر میں عیسٰی ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی ۔ اگر اللہ چاہتا ، تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے ، وہ آپس میں لڑتے ۔ مگر﴿ اللہ کی مشیّت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبرا ً اختلاف سے روکے ، اس وجہ سے﴾ انہوں نے باہم اختلاف کیا ، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ۔ ہاں اللہ چاہتا ، تو وہ ہرگز نہ لڑتے ، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ 275 ؏۳۳
یہ سب رسول ( جو ہم نے مبعوث فرمائے ) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ، ان میں سے کسی سے اﷲ نے ( براہِ راست ) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں ( سب پر ) فوقیّت دی ( یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی ) ، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسٰی ( علیہ السلام ) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی ، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے ( اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کئے پر اﷲ کے حضور جواب دہ ہونے کے لئے دی گئی تھی ) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا ، ( اور یہ بات یاد رکھو کہ ) اگر اﷲ چاہتا ( یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا ) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے ، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :275 مطلب یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں ، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا ۔ نہیں ، اگر وہ چاہتا ، تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا ۔ مگر اس کی مشیت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انہیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبور کر دے ۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا ، اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں انتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انہیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں ، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بینات سے لوگوں کو راستی کی طرف بلانے کی کوشش کریں ۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے ، وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی ، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں ، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا ، مگر معاذ اللہ اسے کامیابی نہ ہوئی ۔
ذِکر مدارج الانبیاء یہاں یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ رسولوں میں بھی مراتب ہیں ، جیسا اور جگہ فرمایا ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض و اتینا داؤد زبورا ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور حضرت داؤد کو ہم نے زبور دی ، یہاں بھی اسی کا ذِکر کرکے فرماتا ہے ان میں سے بعض کو شرف ہمکلامی بھی نصیب ہوا جیسا حضرت موسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت آدم ۔ صحیح ابن حبان میں حدیث ہے جس میں معراج کے بیان کے ساتھ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ کسی نبی کو آپ نے الگ الگ کس آسمان میں پایا جو ان کے مرتبوں کے کم و بیش ہونے کی دلیل ہے ، ہاں ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی کچھ بات چیت ہو گئی تو یہودیوں نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے موسیٰ کی تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو مسلمان سے ضبط نہ ہو سکا ، اس نے اٹھا کر ایک تھپڑ مارا اور کہا خبیث کیا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ افضل ہیں؟ یہودی نے سرکارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آکر اس کی شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، قیامت کے دن سب بیہوش ہونگے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوئے تھے؟ اور طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں کی بیہوشی سے بچا لئے گئے ، پس مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبروں کے درمیان فضیلت نہ دو ، پس یہ حدیث بظاہر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل کوئی تعارض نہیں ، ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس سے پہلے ہو کہ آپ کو فضیلت کا علم نہ ہوا ہو ، لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر ، تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک کو ایک پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اس لئے آپ نے منع فرما دیا ، چوتھا جواب یہ ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی صرف اپنی رائے ، اپنے خیال اور اپنے ذہنی تعصب سے اپنے نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت نہ دو ، پانچواں جواب یہ ہے کہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تمہارے بس کا نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو ، تمہارا کام تسلیم کرنا اور ایمان لانا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو واضح دلیلیں اور پھر ایسی حجتیں عطا فرمائی تھیں جن سے بنی اسرائیل پر صاف واضح ہو گیا کہ آپ کی رسالت بالکل سچی ہے اور ساتھ ہی آپ کی یہ حیثیت بھی واضح ہو گئی کہ مثل اور بندوں کے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور بےکس غلام ہیں ، اور روح القدس یعنی حضرت جبرائیل سے ہم نے ان کی تائید کی ۔ پھر فرمایا کہ بعد والوں کے اختلاف بھی ہمارے قضا و قدر کا نمونہ کا نمونہ ہیں ، ہماری شان یہ ہے کہ جو چاہیں کریں ، ہمارے کسی ارادے سے مراد جدا نہیں ۔