Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
مَنۡ كَانَ يَظُنُّ اَنۡ لَّنۡ يَّـنۡصُرَهُ اللّٰهُ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ فَلۡيَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لۡيَـقۡطَعۡ فَلۡيَنۡظُرۡ هَلۡ يُذۡهِبَنَّ كَيۡدُهٗ مَا يَغِيۡظُ‏ ﴿15﴾
جس کا خیال یہ ہو کہ اللہ تعالٰی اپنے رسول کی مدد دونوں جہان میں نہ کرے گا وہ اونچائی پر ایک رسہ باندھ کر ( اپنے حلق میں پھندا ڈال کر اپنا گلا گھونٹ لے ) پھر دیکھ لے کہ اس کی چالاکیوں سے وہ بات ہٹ جاتی ہے جو اسے تڑپا رہی ہے؟
من كان يظن ان لن ينصره الله في الدنيا و الاخرة فليمدد بسبب الى السماء ثم ليقطع فلينظر هل يذهبن كيده ما يغيظ
Whoever should think that Allah will not support [Prophet Muhammad] in this world and the Hereafter - let him extend a rope to the ceiling, then cut off [his breath], and let him see: will his effort remove that which enrages [him]?
Jiss ka yeh khayal ho kay Allah Taalaa apnay rasool ki madad dono jahan mein na keray ga woh unchaee per aik rassa bandh ker ( apnay halaq mein phanda daal ker apna gala ghont ley ) phir dekh ley kay uss ki chalakkiyon say woh baat hat jati hai jo ussay tarpa rahi hai?
جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس ( پیغمبر ) کی مدد نہیں کرے گا تو وہ آسمان تک ایک رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالے ، پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس کی جھنجلاہٹ دور کرسکتی ہے ؟ ( ١٠ )
جو یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ اپنے نبی ( ف٤۰ ) کی مدد نہ فرمائے گا دنیا ( ف٤۱ ) اور آخرت میں ( ف٤۲ ) تو اسے چاہیے کہ اوپر کو ایک رسی تانے پھر اپنے آپ کو پھانسی دے لے پھر دیکھے کہ اس کا یہ داؤں کچھ لے گیا اس بات کو جس کی اسے جلن ہے ( ف٤۳ )
جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے ، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے 22 ۔ ۔ ۔ ۔
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اﷲ اپنے ( محبوب و برگزیدہ ) رسول کی دنیا و آخرت میں ہرگز مدد نہیں کرے گا اسے چاہئے کہ ( گھر کی ) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے پھر ( خود کو ) پھانسی دے لے پھر دیکھے کیا اس کی یہ تدبیر اس ( نصرتِ الٰہی ) کو دور کر دیتی ہے جس پر غصہ کھا رہا ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :22 اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں ۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے : 1 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے ۔ 2 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جائے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے ۔ 3 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کرنے کی کوشش کر دیکھے ۔ 4 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے ۔ 5 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے ) مدد نہ کرے گا وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خود کشی کر لے ۔ 6 ) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی ( یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی ) مدد نہ کرے گا وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے ۔ ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں ۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں ، لیکن کلام کے ٹھیک مدعا تک نہیں پہنچتے ۔ سلسلہ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے ، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے ، اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے ، یا کسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے ، تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے ۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے ؟ اس لیے کہ وہ قضائے الہٰی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سر رشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں ، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے ، حتیٰ کہ اگر آسمان کو پھاڑ کر تھگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر الہٰی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے ۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش جس کا انسان تصور کر سکتا ہو ۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے ۔
مخالفین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہلاک ہوں یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے ۔ آپ کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لئے نہ آئے گویہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی ۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا ۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہوگی ۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے ۔ لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بےبسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لئے انہیں چاہئے کہ یہ مرجائیں ، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندروں کی مدد کرتے ہی ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہاں فرمایا کہ یہ پھانسی پر لٹک کر دیکھ لے کہ شان محمدی کو کس طرح کم کرسکتا ہے؟ اپنے سینے کی آگ کو کسی طرح بجھا سکتا ہے اس قرآن کو ہم نے اتارا ہے جس کی آیتیں الفاظ اور معنی کے لحاظ سے بہت ہی واضع ہیں ۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر یہ حجت ہے ۔ ہدایت گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی حکمت وہی جانتا ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا وہ سب کا حاکم ہے ، وہ رحمتوں والا ، عدل والا ، غلبے والا ، حکمت والا ، عظمت والا ، اور علم والا ہے ۔ کوئی اس پر مختار نہیں جو چاہے کرے سب سے حساب لینے والا وہی ہے اور وہ بھی بہت جلد ۔