Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الۡحَـىُّ الۡقَيُّوۡمُۚ  لَا تَاۡخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوۡمٌ‌ؕ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَشۡفَعُ عِنۡدَهٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِهٖ‌ؕ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ‌ۚ وَلَا يُحِيۡطُوۡنَ بِشَىۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ‌‌ۚ وَلَا يَـــُٔوۡدُهٗ حِفۡظُهُمَا ‌ۚ وَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿255﴾
اللہ تعالٰی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے ، اس کی کرسی کی وُسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اُکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے
الله لا اله الا هو الحي القيوم لا تاخذه سنة و لا نوم له ما في السموت و ما في الارض من ذا الذي يشفع عنده الا باذنه يعلم ما بين ايديهم و ما خلفهم و لا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء وسع كرسيه السموت و الارض و لا يوده حفظهما و هو العلي العظيم
Allah - there is no deity except Him, the Ever-Living, the Sustainer of [all] existence. Neither drowsiness overtakes Him nor sleep. To Him belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. Who is it that can intercede with Him except by His permission? He knows what is [presently] before them and what will be after them, and they encompass not a thing of His knowledge except for what He wills. His Kursi extends over the heavens and the earth, and their preservation tires Him not. And He is the Most High, the Most Great.
Allah Taalaa hi mabood-e-bar haq hai jiss kay siwa koi mabood nahi jo zinda aur sab kay thamney wala hai jissay na oongh aaye na neend uss ki milkiyat mein zamin aur aasmanon ki tamam cheezen hain. Kaun hai jo uss ki ijazat kay baghair uss kay samney shifaat ker sakay woh janta hai jo inn kay samney hai aur jo inn kay peechay hai aur woh iss kay ilm mein say kissi cheez ka ehaata nahi ker saktay magar jitna woh chahaye uss ki kursi ki wusat ney zamin-o-aasman ko gher rakha hai aur Allah Taalaa inn ki hifazat say na thakta na uktata hai woh to boht buland aur boht bara hai.
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سدا زندہ ہے جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے ، نہ نیند ۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے ( وہ بھی ) اور زمین میں جو کچھ ہے ( وہ بھی ) سب اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے ، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لاسکتے ، سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے ، اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہواہے ، اور ان دونوں کی نگہبانی سے اسے ذرا بھی بوجھ نہیں ہوتا ، اور وہ بڑا عالی مقام ، صاحب عظمت ہے ۔
اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ( ف۵۲۳ ) وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا ( ف۵۲٤ ) اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند ( ف۵۲۵ ) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ( ف۵۲٦ ) وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے ( ف۵۲۷ ) جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ( ف۵۲۹ ) اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے ( ف۵۲۹ ) اس کی کرسی میں سمائے ہوئے آسمان اور زمین ( ف۵۳۰ ) اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے بلند بڑائی والا ( ف۵۳۱ )
اللہ ، وہ زندہ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ 278 نہ وہ سوتا ہے ، اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے ۔ 279 زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ۔ 280 ، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ 281 جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے ۔ 282 اس کی حکومت 283 آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے ۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے ۔ 284
اﷲ ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے ( سارے عالم کو اپنی تدبیر سے ) قائم رکھنے والا ہے ، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے ، کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے ، جو کچھ مخلوقات کے سامنے ( ہو رہا ہے یا ہو چکا ) ہے اور جو کچھ ان کے بعد ( ہونے والا ) ہے ( وہ ) سب جانتا ہے ، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے ، اس کی کرسیء ( سلطنت و قدرت ) تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے ، اور اس پر ان دونوں ( یعنی زمین و آسمان ) کی حفاظت ہرگز دشوار نہیں ، وہی سب سے بلند رتبہ بڑی عظمت والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :278 یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں ، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے ، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں ، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے ۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے ، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود ( الٰہ ) بنایا جا رہا ہے ، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :279 یہ ان لوگوں کے خیالات کی تردید ہے ، جو خداوند عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسوب کرتے ہیں ، جو انسانوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :280 یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اس چیز کا مالک ہے ، جو زمین و آسمان میں ہے ۔ اس کی ملکیت میں ، اس کی تدبیر میں اور اس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں ۔ اس کے بعد کائنات میں جس دوسری ہستی کا بھی تم تصور کر سکتے ہو ، وہ بہرحال اس کائنات کی ایک فرد ہی ہوگی ، اور جو اس کائنات کا فرد ہے ، وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے ، نہ کہ اس کا شریک اور ہمسر ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :281 یہ ان مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے ، جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے ، جس بات پر اڑ بیٹھیں ، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں ، اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں ۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرب ترین فرشتہ اس پادشاہ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جرأت نہیں رکھتا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :282 اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے ۔ اوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدود حاکمیت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصور پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالاستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے ۔ اب ایک دوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے ، جبکہ کسی دوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو ۔ انسان ہوں یاجن یا فرشتے یا دوسری مخلوقات ، سب کا علم ناقص اور محدود ہے ۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں ۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جز میں بھی کسی بندے کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے ۔ نظام عالم تو رہا درکنار ، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں ۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوند عالم ہی پوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں ، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :283 اصل میں لفظ”کُرْسِی“ استعمال ہوا ہے ، جسے بالعموم حکومت و اقتدار کے لیے استعارے کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں بھی اکثر کرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مراد لیتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :284 یہ آیت ”آیت الکرسی“ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔ اسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے ۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوند عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے ، جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے ۔ پہلے مسلمانوں کو دین حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اکسایا گیا ہے اور ان کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے ۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں ، بلکہ ایمان ، صبر و ضبط اور پختگی عزم پر ہے ۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے ، اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ دنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے ، ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مل جاتا ، تو دوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا ۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے ، جو ناواقف لوگوں کے دلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سد باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اخلافات مٹے ، نہ نزاعات ختم ہوئے ، تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اس نے ان خرابیوں کو دور کرنا چاہا اور نہ کر سکا ۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجز روک دینا اور نوع انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیت ہی میں نہ تھا ، ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اس کی مشیت کے خلاف چلتا ۔ پھر ایک فقرے میں اس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کے عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں ، بہرحال حقیقت نفس الامری ، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے ، یہ ہے ، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے ۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا ۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبردستی مجبور کیا جائے ۔ جو اسے مان لے گا ، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا ، وہ آپ نقصان اٹھائے گا ۔
عظیم تر آیت تعارف اللہ بزبان اللہ یہ آیت آیت الکرسی ہے ، جو بڑی عظمت والی آیت ہے ۔ حضرت ابی بن کعب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ آپ جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے ۔ آپ پھر یہی سوال کرتے ہیں ، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابو المنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے ، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں ، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی ۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں ، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا ، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا ، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا ، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں ، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے ، اس نے ہاتھ بڑھا دیا ، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے ، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں ، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہو گیا ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے ، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے؟ اس نے کہا آیت الکرسی ۔ صبح کو جب میں سرکارِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہی ( ابو یعلی ) ایک بار مہاجرین کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو ایک شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے ، آپ نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی ( طبرانی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کر لیا ؟ اس نے کہا حضرت میرے پاس مال نہیں ، اس لئے نکاح نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل ھو اللہ یاد نہیں؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے ، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہو گیا ، کیا قل یاایھا الکافرون یاد نہیں ، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے ، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ، پھر پوچھا کیا اذا زلزلت بھی یاد ہے؟ کہا ہاں ، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ، کیا اذا جاء نصر اللہ بھی یاد ہے؟ کہا ہاں ، فرمایا چوتھائی یہ ، کہا آیت الکرسی یاد ہے؟ کہا ہاں ، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا ( مسند احمد ) حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے ، میں آ کر بیٹھ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے کہا نہیں ، فرمایا اٹھو نماز ادا کر لو ۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ ، میں نے کہا حضور روزہ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہی ، میں نے کہا صدقہ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا ، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا ، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ فرمایا حضرت آدم ، میں نے کہا وہ نبی تھے؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے ، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت ، ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے ، میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری؟ فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ ، ( مسند احمد ) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کر لے جایا کرتے تھے ، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا بسم اللہ اجیبی رسول اللہ جب وہ آیا میں نے یہی کہا ، پھر اسے چھوڑ دیا ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا ، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا ، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا ، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا ، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آسکے ، میں نے کہا اچھا بتاؤ ، کہا وہ آیت الکرسی ہے ۔ میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذِکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ، گو وہ جھوٹا ہے ( مسند احمد ) صحیح بخاری شریف میں کتاب فضائل القرآناور کتاب الوکالہ اور صفۃ ابلیس کے بیان میں بھی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا ، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آ سکے گا ( بخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا سبحان من سخرک محمد شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا ( ابن مردویہ ) پس یہ واقعہ تین صحابہ کا ہوا ، حضرت ابی بن کعب کا ، حضرت ابو ایوب انصاری کا اور حضرت ابو ہریرہ کا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا ؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آسکے ، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا ، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں ، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں ، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے ، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے ۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص عمر تھے ( کتاب الغریب ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورۃ بقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے ۔ وہ آیت آیت الکرسی ہے ( مستدرک حاکم ) ترمذی میں ہے ہر چیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورۃ بقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے ۔ حضرت عمر کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے ( ابن مردویہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ۔ ایک تو آیت الکرسی ، دوسری آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ وہ اسمِ اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے ۔ وہ تین سورتوں میں ہے ، سورۃ بقرہ ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہ ( ابن مردویہ ) ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورۃ بقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہ کی آیت و عنت الوجوہ للحی القیوم ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے ( ابن مردویہ ) اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابو الفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں واللہ اعلم ، تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے ۔ ابن مردویہ میں کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکرگزار دِل اور ذِکر کرنے والی زبان دوں گا ۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا ۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء اور صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دِل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کر لیا ہو ، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے ۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورۃ حم المومنین کو الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہو گی لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے ۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لئے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لئے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے ، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا ۔ اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے ، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے ۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی ، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے ۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت قیام بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے ، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں ، جیسے اور جگہ ہے ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ ) 30 ۔ الروم:25 ) یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں ، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بےخبر ہو ، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر ، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر ، دِل کے ہر خطرے سے وہ واقف ، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں ، یہی پوری قیومیت ہے ۔ اونگھ ، غفلت ، نیند اور بےخبری سے اس کی ذات مکمل پاک ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں ، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں ، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے ، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے ، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے ، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں ، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے ، عبدالرزاق میں حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ موسیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ حضرت موسیٰ کو تین راتوں تک بیدار رکھیں ، انہوں نے یہی کیا ، تین راتوں تک سونے نہ دیا ، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں ، آپ نے انہیں تھام لیا لیکن جاگا ہوا تھا ، نیند کا غلبہ ہوا ، اونگھ آنے لگی ، آنکھ بند ہو جاتی لیکن پھر ہوشیار ہو جاتے مگر کب تک؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں ، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے؟ لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دِل کو لگتی بھی نہیں اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ جیسے جلیل القدر عارف باللہ اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال والا کرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن حریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا کل ممن فی السموات والارض الخ ، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں ، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کرکے گن رکھا ہے ۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہوگی ، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کرسکے ، جیسے ارشاد ہے و کم من ملک فی السموات الخ ، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی ، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشای اور مرضی سے ہو ، اور جگہ ہے ولایشفعون الا لمن ارتضی کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو ، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے ، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضامندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے ، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے ، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائو ، کہو ، سنا جائے گا ، شفاعت کرو ، منظور کی جائے گی ، آپ فرماتے ہیں پھر میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ مانتنزل الا بامر ربک الخ ، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب کی چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے ۔ کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس سے علم منقول ہے ، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے ، حضرت ابو ہریرہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں ، ابو مالک فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے ، سدی کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے ، ابن عباس فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کر دیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹییل میدان میں ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں ، ابو ذرغفاری نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے ، ایک عورت نے آن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے ، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیرمشہور ہے کسی میں ارسال ہے ، کوئی موقوف ہے ، کسی میں بہت کچھ غریب زبادتی ہے ، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب حضرت جسیر والی حدیث ہے جو ابو داؤد میں مروی ہے ۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے ۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذِکر نہیں واللہ اعلم ، مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی ، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے ، حسن بصری فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے ، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے ، علامہ ابن جریر تو اس بارے میں حضرت عمر والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے واللہ اعلم ، پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے ۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے ، تمام مخلوق اس کے سانے حقیر متواضح ذلیل پست محتاج اور فقیر ، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا ، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا ، ہر چیز پر وہ غالب ، ہر چیز کا حافظ اور مالک ، وہ علو ، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے ، اسی لئے فرمایا وھو العلی العظیم بلندی اور عظمت والا وہی ہے ۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صات باری میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا تھا ۔