Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
لَاۤ اِكۡرَاهَ فِى الدِّيۡنِ‌ۙ  قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّ‌ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿256﴾
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ، ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے ، اس لئے جو شخص اللہ تعالٰی کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالٰی سننے والا جاننے والا ہے ۔
لا اكراه في الدين قد تبين الرشد من الغي فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن بالله فقد استمسك بالعروة الوثقى لا انفصام لها و الله سميع عليم
There shall be no compulsion in [acceptance of] the religion. The right course has become clear from the wrong. So whoever disbelieves in Taghut and believes in Allah has grasped the most trustworthy handhold with no break in it. And Allah is Hearing and Knowing.
Deen kay baray mein koi zabardasti nahi hodayat zalalat say roshan ho chuki hai iss liye jo shaks Allah Taalaa kay siwa doosray maboodon ka inkar ker kay Allah Taalaa per eman laye uss ney mazboot karay ko thaam liya jo kabhi na tootay ga aur Allah Taalaa sunney wala janney wala hai.
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہوچکا ، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا ، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ، اور اللہ خوب سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے ۔
کچھ زبردستی نہیں ( ف۵۳۲ ) دین میں بیشک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللہ پر ایمان لائے ( ف۵۳۳ ) اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جسے کبھی کھلنا نہیں ، اور اللہ سنتا جانتا ہے ،
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ 285 صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت 286 کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ، اور اللہ﴿ جس کا سہارا اس نے لیا ہے﴾ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔
دین میں کوئی زبردستی نہیں ، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے ، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا ( ممکن ) نہیں ، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :285 یہاں” دین“ سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے ، اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ”اسلام“ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبر دستی نہیں ٹھونسا جا سکتا ۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :286 ”طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا ، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو ۔ قران کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے ، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے ۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں ۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے ، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اس کا نام فسق ہے ۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔ یہ کفر ہے ۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے ۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے ، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو ۔
جبر اور دعوت اسلام یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر ، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہو چکی اس کے دلائل و براہین بیان ہو چکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا ، جس کا سینہ کھلا ہوا دِل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہو جائے گا ، ہاں اندھے دِل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنا دیں گے ، یہودیوں کے سپرد کر دیں گے ، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے ، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین انصار بنے ، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل علیہ السلام نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا جائے ، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنالیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو ، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا ، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں ، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں ، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی ، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہوگئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہوگئے ، ان کے باپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذِکر کیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنالوں ، ورنہ پھر آپ کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت عمر کا غلام اسبق نصرانی تھا ، آپ اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا ، آپ کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے ، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کر چکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہو جائیں ، بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کر دیا ، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے ، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ) 48 ۔ الفتح:16 ) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے ، اور جگہ ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ، اور جگہ ہے ایماندارو! اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو ، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے ، صحیح حدیث میں ہے ، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں ، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہو جاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مسلمان ہو جاؤ ، اس نے کہا حضرت میرا دِل نہیں مانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گو دِل نہ چاہتا ہو ، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے مجبور کیا ، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے ، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دِل کو کھول دے اور تو دِل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہو جائے گا ، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو ، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے ۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں جبت سے مراد جادو ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے ، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں ۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا ۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے ، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی ، حضرت عمر کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لئے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی ، بت کی پوجا کرنا ، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا ، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے ، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا ، عروہ وثقف سے مراد ایمان اسلام توحید باری قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے ، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک ، اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) 13 ۔ الرعد:11 ) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بگاڑتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بگاڑ لے ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے حضرت قیس بن عبادہ فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں ، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں ، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا ، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا ، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہئے جس کا علم اسے نہ ہو ، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے ایک درمیان لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا ، چنانچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا ، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا ، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا ، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو میرے دم تک اسلام پر قائم رہے گا ، یہ شخص حضرت عبداللہ بن سلام ہیں ، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے ۔ مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اسں میں لے جائے ، خواب کے ذِکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں ۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا ، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط معلوم تھام لیا ہے ، میں نے کہاں ہاں ، اس نے زور سے ستون پر اپنا پاؤں مارا ، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا ، جب یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنایا تو آپ نے فرمایا بہت نیک خواب ہے ، میدان محشر ہے ، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں ، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے ، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے ، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو ، اس کے بعد حضرت عبداللہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا ۔