Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ عِنۡدَ رَبِّهٖ‌ؕ وَاُحِلَّتۡ لَـكُمُ الۡاَنۡعَامُ اِلَّا مَا يُتۡلٰى عَلَيۡكُمۡ‌ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِۙ‏ ﴿30﴾
یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے ۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کئے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔
ذلك و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان و اجتنبوا قول الزور
That [has been commanded], and whoever honors the sacred ordinances of Allah - it is best for him in the sight of his Lord. And permitted to you are the grazing livestock, except what is recited to you. So avoid the uncleanliness of idols and avoid false statement,
Yeh hai aur jo koi Allah ki hurmaton ki tazeem keray uss kay apnay liye uss kay rab kay pass behtari hai. Aur tumharay liye chopaye janwar halal ker diya gaye ba-juz unn kay jo tumharay samney biyan kiye gaye hain pus tumhen buton ki gandagi say bachtay rehna chahiye aur jhooti baat say bhi perhez kerna chahiye.
یہ ساری باتیں یاد رکھو ، اور جو شخص ان چیزوں کی تعظیم کرے گا جن کو اللہ نے حرمت دی ہے تو اس کے حق میں یہ عمل اس کے پروردگار کے نزدیک بہت بہتر ہے ۔ سارے مویشی تمہارے لیے حلال کردیے گئے ہیں ، سوائے ان جانوروں کے جن کی تفصیل تمہیں پڑھ کر سنا دی گئی ہے ۔ ( ١٧ ) لہذا بتوں کی گندگی اور جھوٹٰ بات سے اس طرح بچ کر رہو ۔
بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے ( ف۷۷ ) تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے ، اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بےزبان چوپائے ( ف۷۸ ) سوا ان کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے ( ف۷۹ ) تو دور ہو بتوں کی گندگی سے ( ف۸۰ ) اور بچو جھوٹی بات سے ،
یہ تھا ﴿تعمیر کعبہ کا مقصد﴾ اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے ۔ 54 اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے ، 55 ماسوا ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جاچکی ہیں ۔ 56 پس بتوں کی گندگی سے بچو ، 57 جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو ، 58
یہی ( حکم ) ہے ، اور جو شخص اﷲ ( کی بارگاہ ) سے عزت یافتہ چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بہتر ہے ، اور تمہارے لئے ( سب ) مویشی ( چوپائے ) حلال کر دیئے گئے ہیں سوائے ان کے جن کی ممانعت تمہیں پڑھ کر سنائی گئی ہے سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :54 بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں ۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :55 اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے ۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں ۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے ۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :56 اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے ۔ ( الانعام ، آیت 145 ۔ النحل ، آیت 115 ) ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :57 یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے ۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :58 اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان ، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیاد ہے ۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے ۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ، اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو آیت 116 ۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالاشراک باللہِ ، جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی ۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور فعل بھی ہے ۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم وجھہ ویطال جلسہ ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہوگئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو ، پھر اس کو قید کر دیا ۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے ۔
بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان ۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے ، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے ۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے ۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں ۔ تمہارے لئے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہو چکے ہیں ۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے ۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا ، گلا گھٹا ہوا وغیرہ ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو ، من یہاں پر بیان جنس کے لئے ہے ۔ اور جھوٹی بات سے بچو ۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 33؀ ) 7- الاعراف:33 ) یعنی میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کردیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو ۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا ۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ اب نہ فرماتے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کردی گئی پھر آپ نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا ۔ اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لوباطل سے ہٹ کر حق کی طرف آجاؤ ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے والوں میں نہ بنو ۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی ۔ چنانچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ابراہیم میں گزر چکی ہے سورۃ انعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے ۔ الخ ۔