Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَالصّٰبِرِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمۡ وَالۡمُقِيۡمِى الصَّلٰوةِ ۙ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏ ﴿35﴾
انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں ، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں ۔
الذين اذا ذكر الله و جلت قلوبهم و الصبرين على ما اصابهم و المقيمي الصلوة و مما رزقنهم ينفقون
Who, when Allah is mentioned, their hearts are fearful, and [to] the patient over what has afflicted them, and the establishers of prayer and those who spend from what We have provided them.
Unhen kay jab Allah ka zikar kiya jaye unn kay dil tharra jatay hain unhen jo buraee phonchay uss per sabar kertay hain namaz qaeem kerney walay hain aur jo kuch hum ney unhen dey rakha hai woh uss mein say bhi detay rehtay hain.
جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے د لوں پر رعب طاری ہوجاتا ہے ، اور جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر مصیبت پر صبر کرنے والے ہیں ، اور نماز قائم کرنے والے ہیں ، اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے ( اللہ کے راستے میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں ( ف۹۱ ) اور جو افتاد پڑے اس کے سنے والے اور نماز برپا رکھنے والے اور ہمارے دیے سے خرچ کرتے ہیں ( ف۹۲ )
عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو ، 65 جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ 66
۔ ( یہ ) وہ لوگ ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے ( تو ) ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو مصیبتیں انہیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :65 اصل میں لفظ مُخْبِتِین استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا ۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا ۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :66 اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کر چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا ، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا ، رفاہ عام کے کاموں میں حصہ لینا ، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے ۔ بے جا خرچ ، اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن انفاق قرار دیتا ہو ، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے ۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے ، کہ آدمی اپنے اہل و عیاں کو بھی تنگ رکھے ، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے ، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے ، تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے ، مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام انفاق نہیں ہے ۔ وہ اس کو بخل اور شُحِّ نفس کہتا ہے ۔