Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآٮِٕرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ‌ ‌ۖ  فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ‌ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿36﴾
قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو ، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے ( خود بھی ) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو ۔
و البدن جعلنها لكم من شعاىر الله لكم فيها خير فاذكروا اسم الله عليها صواف فاذا وجبت جنوبها فكلوا منها و اطعموا القانع و المعتر كذلك سخرنها لكم لعلكم تشكرون
And the camels and cattle We have appointed for you as among the symbols of Allah ; for you therein is good. So mention the name of Allah upon them when lined up [for sacrifice]; and when they are [lifeless] on their sides, then eat from them and feed the needy and the beggar. Thus have We subjected them to you that you may be grateful.
Qurbani kay oont hum ney tumharay liye Allah Taalaa ki nishaniyan muqarrar ker di hain inn mein tumhen nafa hai. Pus unhen khara ker kay unn per Allah ka naam lo phir jab unn kay pehloo zamin say lag jayen ussay ( khud bhi ) khao aur miskeen sawal say rukney walon aur sawal kerney walon ko bhi khilao issi tarah hum ney chopayon ko tumharay ma-tehat ker diya hai kay tum shukar guzari kero.
اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے ، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے ۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں ، ان پر اللہ کا نام لو ، پھر جب ( ذبح ہوکر ) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان ( کے گوشت ) میں سے خود بھی کھاؤ ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں ، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں ۔ ( ٢١ ) اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گذار بنو ۔
اور قربانی کے ڈیل دار جانور اور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے ( ف۹۳ ) تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے ( ف۹٤ ) تو ان پر اللہ کا نام لو ( ف۹۵ ) ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے ( ف۹٦ ) پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں ( ف۹۷ ) تو ان میں سے خود کھاؤ ( ف۹۸ ) اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ ، ہم نے یونہی ان کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو ،
اور ﴿قربانی کے ﴾ اونٹوں 67 کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے 68 ، پس انھیں کھڑا کر کے 69 ان پر اللہ کا نام لو ، 70 اور جب ﴿قربانی کے بعد﴾ ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں 71 تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں ۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو ۔ 72
اور قربانی کے بڑے جانوروں ( یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ ) کو ہم نے تمہارے لئے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم ( انہیں ) قطار میں کھڑا کر کے ( نیزہ مار کر نحر کے وقت ) ان پر اﷲ کا نام لو ، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود ( بھی ) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے ( محتاجوں ) کو ( بھی ) کھلاؤ ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :67 اصل میں لفظ بدن استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے ۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی ملکر کر سکتے ہیں ۔ مسلم میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ : امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشترک فی الاضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں ، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :68 یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو ۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے ۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے ، نہ صرف شکر نعمت کے لیے ، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی ، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے ۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے ۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے ۔ زکوٰۃ ان اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں ۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے ۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے ۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں ۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں ، جن کے گوشت کھاتے ہیں ، جن کے دودھ پیتے ہیں ، جن کی کھالوں اور بالوں اور خون اور ہڈی ، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :69 واضح رہے کہ اونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے ۔ اس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے ، پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے ، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اونٹ زمین پر گر پڑتا ہے ۔ یہی مفہوم ہے صَواف کا ۔ ابن عباس ، مجاہد ، ضحاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے ۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے ۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابن عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : ابعثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اس کو پاؤں باندھ کر کھڑا کر ، یہ ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ ابوداؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اسے کھڑا کرتے تھے ، پھر اس کو نحر کرتے تھے ۔ اسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے : اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا ، جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں ۔ یہ اسی صورت میں بولیں گے جب کہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے ۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :70 یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا ، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ذبح کرو کہنے کے بجائے ان پر اللہ کا نام لو فرما رہا ہے ، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے ۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصور اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے ۔ ذبح کرتے وقت بِسْمِ اللہِ اَللہُ آکْبَر کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے ۔ آیت 36 میں فرمایا : فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا ، ان پر اللہ کا نام لو ۔ اور آیت 37 میں فرمایا : لِتَکَبِّرُوا اللہ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ، تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو ۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں ۔ مثلاً 1 : ۔ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ اکْبَر ، اَللہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، اللہ کے نام کے ساتھ ، اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ 2 : ۔ اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ اللہمّ منک ولک ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ خدایا تیار ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ 3 : ۔ اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ بِذٰلِکَ اَمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں ۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :71 ٹکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں ، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گر کر ٹھہر جائیں ، یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نکل جائے ۔ ابو داؤد ، ترمذی اور مسنداحمد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : ما قُطع ( اَو ما بان ) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ ، یعنی جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :72 یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے ۔ فرمایا ، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کر کے تمہیں بخشی ہے ۔
شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا Ą۝ ) 5- المآئدہ:2 ) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بے ادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے ۔ وہ بدن میں داخل ہے ۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں ۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے ۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانورں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں ۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا ۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو ( ابن ماجہ ترمذی ) حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں ۔ ( دارقطنی ) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہو سکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر ) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے ( احمد داؤد ترمذی ) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا ( وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے ، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے ۔ ( احمد ابن ماجہ ) صواف کے معنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا ( بسم اللہ واللہ اکبر لاایہ الا اللہم منک ولک ) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے ۔ ( ابوداؤد ) حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو ۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو ، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو ۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑ جائے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو ۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے ۔ ( احمدابوداؤد ترمذی ) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے ۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا ۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں ۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے ۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں ۔ تہائی اپنے کھانے کو ، تہائی دوستوں کے دینے کو ، تہائی صدقہ کرنے کو ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو ۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو ۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ ، جمع ، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو ۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھا جائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں ۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے ، بعض آدھا گوشت ۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے ۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں ۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے ۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں ۔ ( مسئلہ ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی ۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کر لی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں ( بخاری مسلم ) اسی لئے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے ۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم ۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیارھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں ۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں ( احمد ، ابن حبان ) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو ، جب چاہو دودھ نکال لو ، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو ۔ جیسے سورۃ یسٰین میں آیت ( اولم یروا ) سے ( افلا تشکرون ) تک بیان ہوا ہے ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری ، ناقدری نہ کرو ۔