Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ‌ؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿37﴾
اللہ تعالٰی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے توتمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو ، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے ۔
لن ينال الله لحومها و لا دماؤها و لكن يناله التقوى منكم كذلك سخرها لكم لتكبروا الله على ما هدىكم و بشر المحسنين
Their meat will not reach Allah , nor will their blood, but what reaches Him is piety from you. Thus have We subjected them to you that you may glorify Allah for that [to] which He has guided you; and give good tidings to the doers of good.
Allah Taalaa ko qurbaniyon kay gosht nahi phonchtay na unn kay khoon bulkay ussay to tumharay dil ki perhezgari phonchti hai. Issi tarah Allah ney inn janwaron ko tumhara mutee ker diya hai kay tum uss ki rehnumaee kay shuriye mein uss ki baraiyan biyan kero aur nek logon ko khuskhabri suna dijiye!
اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے ، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی ، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں ، انہیں خوشخبری سنا دو ۔
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک باریاب ہوتی ہے ( ف۹۹ ) یونہی ان کو تمہارے پس میں کردیا کہ تم اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ تم کو ہدایت فرمائی ، اور اے محبوب! خوشخبری سناؤ نیکی والوں کو ( ف۱۰۰ )
نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے ۔ 73 اس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو ۔ 74 اور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، بشارت دے دے نیکوکار لوگوں کو ۔ 75
ہرگز نہ ( تو ) اﷲ کو ان ( قربانیوں ) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے ، اس طرح ( اﷲ نے ) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم ( وقتِ ذبح ) اﷲ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے ، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :73 جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے ، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے ۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے ۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں ، بلکہ تمہارا تقویٰ ہے ۔ اگر تم شکر نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا ، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا ۔ یہ بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : ان اللہ لا ینظر الیٰ سورکم ولا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم ، اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :74 یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو ۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ ہے ۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے ، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں ، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے ، اس کے حقوق مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں ، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے ۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ : اللھم منک ولک ، خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے ۔ اس مقام پر پہچان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے ، اور صرف مکے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے ، بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے ، جہاں بھی وہ ہوں ، تا کہ وہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر شکریہ اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو جائیں ۔ حج کی سعادت میرے سر نہ آئی نہ سہی ، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوار بیت اللہ میں کریں ۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے ، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ طیبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من وجد سعۃ فلم یُصَّحِّ فلا یقربن مصَلّانا ۔ : جو شخص استطاعت رکھتا ہو ، پھر قربانی نہ کرے ، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف ۔ ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے ۔ بخاری میں حضرت انس کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے روز فرمایا: من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد ومن ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین ۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے ، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق ۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں ۔ مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بقرعید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں ، اپنی اپنی قربانیاں کرلیں ۔ اس پر آپ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھر اعادہ کریں ۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں ، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے ۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت ۔ ابراہیم نخعی ، امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام محمد ، اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی ، اس کو واجب مانتے ہیں ۔ مگر اما شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ سرف سنت مسلمین ہے ، اور سفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں ۔ تاہم علماء امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :75 یہاں سے تقریر کا رخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے ۔ سلسلہ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا ۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارت حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے ۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اس ظلم کے داغ تازہ تھے جو مکے میں ان پر کیے گئے تھے ، بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکے سے نکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے ۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی اس کے پہلے حصے میں کعبے کی تعمیر ، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ کر کیا سے کیا کر دیا ہے ۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اس صورت حال کو بدلنے کے لیے اٹھیں ۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے ، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تاکہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا کر سکے ۔ اس کے بعد اب دوسرے حصے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی جارہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا ۔
قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے ۔ اسی لئے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بےنیاز ہے ۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے ۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے ، مسلمان ہو کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقوی کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہو جاتی ہے واللہ اعلم ۔ عامر شعبی سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا اللہ کو گوشت وخون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو ، اگر چاہو راہ للہ دے دو ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے ۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نامرضی کے کاموں سے رک جاؤ ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ۔ جو لوگ نیک کار ہیں ، حدود اللہ کے پابند ہیں ، شریعت کے عامل ہیں ، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں ۔ ( مسئلہ ) امام ابو حنیفہ مالک ثوری کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے ۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ اسے منکر بتاتے ہیں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم برابر دس سال قربانی کرتے رہے ۔ ( ترمذی ) امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت احمد رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب وفرض نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں ۔ یہ بھی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہوگیا ۔ حضرت ابو شریحہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑوس میں رہتا تھا ۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتدا کریں گے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے ، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کر لی باقی سب نے ایسا نہ کیا ۔ اس لئے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں فرمایا ہر گھر والوں پر ہرسال قربانی ہے اور عتیرہ ہے جانتے ہو عتیرہ کیا ہے؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو ۔ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے ۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کردیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے ، اوروں کو بھی کھلاتے ۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کرلیا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ ) حضرت عبداللہ بن ہشام اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ ( بخاری ) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر مسنہ بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑ جائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کرسکتے ہو ۔ زہری تو کہتے ہیں کہ جزعہ یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے ۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو ۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے ۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں لگ جائے ۔ اور گائے جب دوسال پورے کرکے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو ۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دوسال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہوگیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو ۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں ۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں ۔ جب تک کہ اسکی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے ، واللہ اعلم ۔