Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوۡرٍ‏ ﴿38﴾
سن رکھو! یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالٰی ہٹا دیتا ہے کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالٰی کو ہرگز پسند نہیں ۔
ان الله يدفع عن الذين امنوا ان الله لا يحب كل خوان كفور
Indeed, Allah defends those who have believed. Indeed, Allah does not like everyone treacherous and ungrateful.
Sunn rakho! Yaqeenan sachay momino kay duhmano ko khud Allah Taalaa hata deta hai. Koi khayanat kerney wala na shukra Allah Taalaa ko hergiz pasand nahi.
بیشک اللہ ان لوگوں کا دفاع کرے گا جو ایمان لے آئے ہیں ، ( ٢٢ ) یقین جانو کہ اللہ کسی دغا باز ناشکرے کو پسند نہیں کرتا ۔
بیشک اللہ بلائیں ٹالتا ہے ، مسلمانوں کی ( ف۱۰۱ ) بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا ہر بڑے دغا باز ناشکرے کو ( ف۱۰۲ )
یقینا اللہ مدافعت کرتا ہے ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں ۔ 76 یقینا اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا ۔ 77 ؏ 5
بیشک اﷲ صاحبِ ایمان لوگوں سے ( دشمنوں کا فتنہ و شر ) دور کرتا رہتا ہے ۔ بیشک اﷲ کسی خائن ( اور ) ناشکرے کو پسند نہیں کرتا
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :76 مدافعت دفع سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دور کرنے کے ہیں ۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے ۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے ۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہل ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہل ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے ۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے ، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے ضرر کو ان سے دفع کرتا رہتا ہے ۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہل حق کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :77 یہ وجہ ہے اس بات کی کہ اس کشمکش میں اللہ کیوں اہل حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے ۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے ، اور کافر نعمت ہے ۔ وہ ہر اس امانت میں خیانت کر رہا ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے ، اور ہر اس نعمت کا جواب ناشکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے ۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جد و جہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دے رہا ہے کہ جو اس کے بندے اس پر بھروسہ رکھیں اس کی طرف جھکتے رہیں انہیں وہ اپنی امان نصیب فرماتا ہے ، شریروں کی برائیاں دشمنوں کی بدیاں خود ہی ان سے دور کردیتا ہے ، اپنی مدد ان پر نازل فرماتا ہے ، اپنی حفاظت میں انہیں رکھتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ ) 39- الزمر:36 ) یعنی کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور آیت میں ( وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا Ǽ۝ ) 65- الطلاق:3 ) جو اللہ پر بھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے الخ ، دغا باز ناشکرے اللہ کی محبت سے محروم ہیں اپنے عہدو پیمان پورے نہ کرنے والے اللہ کی نعمتوں کے منکر اللہ کے پیار سے دور ہیں ۔