Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
اُذِنَ لِلَّذِيۡنَ يُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّهُمۡ ظُلِمُوۡا‌ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصۡرِهِمۡ لَـقَدِيۡرُ ۙ‏ ﴿39﴾
جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر ) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔
اذن للذين يقتلون بانهم ظلموا و ان الله على نصرهم لقدير
Permission [to fight] has been given to those who are being fought, because they were wronged. And indeed, Allah is competent to give them victory.
Jin ( musalmano ) say ( kafir ) jang ker rahey hain unhen bhi muqablay ki ijazat di jati hai kiyon kay woh mazloom hain. Be-shak unn ki madad per Allah qadir hai.
جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے ، انہیں اجازت دی جاتی ہے ( کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں ) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے ، ( ٢٣ ) اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے ۔
پروانگی ( اجازت ) عطا ہوئی انھیں جن سے کافر لڑتے ہیں ( ف۱۰۳ ) اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا ( ف۱۰٤ ) اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے ،
اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ، کیونکہ وہ مظلوم ہیں ، 78 اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے ۔ 79
ان لوگوں کو ( جہاد کی ) اجازت دے دی گئی ہے جن سے ( ناحق ) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا ، اور بیشک اﷲ ان ( مظلوموں ) کی مدد پر بڑا قادر ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :78 جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے ، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی ۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی ۔ بعد میں سورہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا ، یعنی : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ، ( آیت 190 ) اور وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھَمْ مِّن حَیْثَ اَخْرَجُوْکُمْ ( آیت 191 ) اور وَقَاتِلُوْھُمْ حتیٰ لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ ( آیت 193 ) اور : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ( آیت 216 ) اور : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ O ( آیت 244 ) اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے ۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی ، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :79 یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں ، اللہ ان کو تمام مشرکین عرب پر غالب کر سکتا ہے ۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی ، مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے ۔ اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے نہایت بر محل تھا ۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا ۔ اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ ۔ دراصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے ۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ ۔
حکم جہاد صادرہوا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکے سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری ۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری ۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے شریف سے ہجرت کی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے ۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی ۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے ۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو ۔ الخ ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16۝ۧ ) 9- التوبہ:16 ) یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں ، اللہ ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے ۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے ۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31؀ ) 47-محمد:31 ) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا ۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا ۔ چنانچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں ۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی ( ٨٠ ) سے کچھ اوپر تھے ۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی ، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے ۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے ۔ بیک بینی ودوگوش وطن مال اسباب ، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کرچل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے ۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا ۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی ۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے ، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی ۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری ۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں ، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں ، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں ، مکے سے نکال دئیے گئے ، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے ۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے ۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں ۔ فرمان ہے آیت ( يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ Ǻ۝ ) 60- الممتحنة:1 ) تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے ۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت ( وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید ) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب ، مہربان ، ذی احسان پر ایمان لائے تھے ۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے ۔ شعر ( لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا ) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے ۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا ، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا ۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں ۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں ۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں ۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں ۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہاجاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد ۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع ، نصرانیوں کے بیع ، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے ۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ Ċ۝ ) 47-محمد:7 ) یعنی اگر اے مسلمانو! تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا ۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں ۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کر دیا ، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب ۔ فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١؀ښ ) 37- الصافات:171 ) یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21؀ ) 58- المجادلة:21 ) خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں ۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے ۔