Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
وَيَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالۡعَذَابِ وَلَنۡ يُّخۡلِفَ اللّٰهُ وَعۡدَهٗ‌ ؕ وَاِنَّ يَوۡمًا عِنۡدَ رَبِّكَ كَاَ لۡفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ‏ ﴿47﴾
اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا ۔ ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے ۔
و يستعجلونك بالعذاب و لن يخلف الله وعده و ان يوما عند ربك كالف سنة مما تعدون
And they urge you to hasten the punishment. But Allah will never fail in His promise. And indeed, a day with your Lord is like a thousand years of those which you count.
Aur azab ko aap say jaldi talab ker rahey hain Allah hergiz apna wada nahi talay ga. Haan albata aap kay rab kay nazdeek aik din tumhari ginti kay aitbar say aik hazar saal ka hai.
اور یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا ، اور یقین جانو کہ تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے ۔ ( ٢٦ )
اور یہ تم سے عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں ( ف۱۳۱ ) اور اللہ ہرگز اپنا وعدہ جھوٹا نہ کرے گا ( ف۱۳۲ ) اور بیشک تمہارے رب کے یہاں ( ف۱۳۳ ) ایک دن ایسا ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس ( ف۱۳٤ )
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۔ 92 اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے ۔ 93
اور یہ آپ سے عذاب میں جلدی کے خواہش مند ہیں اور اﷲ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہ کرے گا ، اور ( جب عذاب کا وقت آئے گا ) تو ( عذاب کا ) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے ( اس حساب سے ) جو تم شمار کرتے ہو
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :92 یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے نبی برحق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ، اور جس کی دھمکیاں بھی تم بارہا ہم کو دے چکے ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :93 یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی اور کل اس کے اچھے یا برے نتائج ظاہر ہو گئے ۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرز عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہوگی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرز عمل کو اختیار کیے ہمیں دس ، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں ، ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں ۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں ۔
ذرا صبر ، عذاب کا شوق پورا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے فرما رہا ہے کہ یہ ملحد کفار اللہ کو اس کے رسول کو اور قیامت کے دن کو جھٹلانے والے تجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی کررہے ہیں کہ جلد ان عذابوں کو کیوں نہیں برپا کردیا جاتا جن سے ہمیں ہر وقت ڈرایا دھمکایا جارہاہے ۔ چنانچہ وہ اللہ سے بھی کہتے تھے کہ الٰہی اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے سنگ باری کر یا اور کسی طرح کا درد ناک عذاب بھیج ۔ کہتے تھے کہ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارا معاملہ صاف کردے ۔ اللہ فرماتا ہے یاد رکھو اللہ کا وعدہ اٹل ہے قیامت اور عذاب آکر ہی رہیں گے ۔ اولیا اللہ کی عزت اور اعداء اللہ کی ذلت یقینی اور ہو کر رہنے والی ہے ۔ اسمعی کہتے ہیں میں ابو عمرو بن علا کے پاس تھا کہ عمرو بن عبید آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عمرو کیا اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے اسی وقت عذاب کی ایک آیت تلاوت کی اس پر آپ نے فرمایا کیا تو عجمی ہے ؟ سن عرب میں وعد کا یعنی اچھی بات سے وعدہ خلافی کو برا فعل سمجھا جاتا ہے لیکن الیعاد کا یعنی سزا کے احکام کا ردو بدل یا معافی بری نہیں سمجھی جاتی بلکہ وہ کرم ورحم سمجھا جاتا ہے دیکھو شاعر کہتا ہے ۔ ( فانی وان اوعدتہ او وعدتہ لمخلف ایعادی ومنجز موعدی ) میں کسی کو سزا کہوں یا اس سے انعام کا وعدہ کروں ۔ تو یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اپنی دھمکی کے خلاف کر جاؤں بلکہ قطعا ہرگز سزا نہ دوں لیکن اپنا وعدہ تو ضرور پورا کر کے ہی رہوں گا ۔ الغرض سزا کا وعدہ کرکے سزا نہ کرنا یہ وعدہ خلافی نہیں ۔ لیکن رحمت انعام کا وعدہ کرکے پھر روک لینا یہ بری صفت ہے جس سے اللہ کی ذات پاک ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک ایک دن اللہ کے نزدیک تمہارے ہزار ہزار دنوں کے برابر ہے یہ بہ اعتبار اس کے حلم اور بردباری کے ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ ہر وقت ان کی گرفت پر قادر ہے اس لئے عجلت کیا ہے ؟ گو کتنی ہی سے مہلت مل جائے ، گو کتنی ہی سے رسی دراز ہوجائے لیکن جب چاہے گا سانس لینے کی بھی مہلت نہ دے گا اور پکڑلے گا ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمان ہوتا ہے بہت سی بستیوں کے لوگ ظلم پر کمر کسے ہوئے تھے ، میں نے بھی چشم پوشی کر رکھی تھی ۔ جب مست ہوگئے تو اچانک گرفت کر لی ، سب مجبور ہیں سب کو میرے ہی سامنے حاضر ہونا ہے ، سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فقرا مسلمان مالدار مسلمانوں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے یعنی پانچ سو برس پہلے ۔ اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھے دن کی مقدار کیا ہے؟ فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں تو یہی آیت سنائی ۔ یعنی اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کاہے ۔ ابو داؤد کی کتاب الملاحم کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری امت کو آدھے دن تک تو ضرور موخر رکھے گا ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا آدھا دن کتنے عرصے کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا پانچ سو سال کا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو پڑھ کر فرمانے لگے یہ ان دنوں میں سے جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ( ابن جریر ) بلکہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الرد علی الجمیہ میں اس بات کو کھلے لفظ میں بیان کیا ہے ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ Ĉ۝ ) 32- السجدة:5 ) کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کام کی تدبیر آسمان سے زمین کی طرف کرتا ہے ، پھر اس کی طرف چڑھ جاتا ہے ۔ ایک ہی دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی ہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ایک نو مسلم اہل کتاب سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین چھ دن میں پیدا کیا اور ایک دن تیرے رب کے نزدیک مثل ایک ہزار سال کے ہے جو گنتے ہو ۔ اللہ نے دنیا کی اجل چھ دن کی کی ہے ساتویں دن قیامت ہے اور ایک ایک دن مثل ہزار ہزار سال کے ہے پس چھ دن تو گزر گئے اور اب تم ساتویں دن میں ہو اب تو بالکل اس حاملہ کی طرح ہے جو پورے دنوں میں ہو اور نہ جانے کب بچہ ہوجائے ۔