Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
ذٰ لِكَ‌ۚ وَمَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِىَ عَلَيۡهِ لَيَنۡصُرَنَّهُ اللّٰهُ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوۡرٌ‏ ﴿60﴾
بات یہی ہے اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقیناً اللہ تعالٰی خود اس کی مدد فرمائے گا بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے ۔
ذلك و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغي عليه لينصرنه الله ان الله لعفو غفور
That [is so]. And whoever responds [to injustice] with the equivalent of that with which he was harmed and then is tyrannized - Allah will surely aid him. Indeed, Allah is Pardoning and Forgiving.
Baat yehi hai aur jiss ney badla liya ussi kay barabar jo uss kay sath kiya gaya tha phir agar uss say ziyadti ki jaye to yaqeenan Allah Taalaa khud uss ki madad farmaye ga. Be-shak Allah darguzar kerney wala bakshney wala hai.
یہ بات تو طے ہے اور ( آگے یہ بھی سن لو کہ ) جس شخص نے کسی کو بدلے میں اتنی ہی تکلیف پہنچائی جتنی اس کو پہنچائی گئی تھی ، اس کے بعد پھر اس سے زیادتی کی گئی ، تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا ۔ ( ٢٨ ) یقین رکھو کہ اللہ بہت معاف کرنے والا ، بہت بخشنے والا ہے ۔
بات یہ ہے اور جو بدلہ لے ( ف۱۵۵ ) جیسی تکلیف پہنچائی گئی تھی پھر اس پر زیادتی کی جائے ( ف۱۵٦ ) تو بیشک اللہ اس کی مدد فرمائے گا ( ف۱۵۷ ) بیشک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ،
یہ تو ہے ان کا حال ، اور جو کوئی بدلہ لے ، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا ، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو ، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا ۔ 104 اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے ۔ 105
۔ ( حکم ) یہی ہے ، اور جس شخص نے اتنا ہی بدلہ لیا جتنی اسے اذیت دی گئی تھی پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو اﷲ ضرور اس کی مدد فرمائے گا ۔ بیشک اﷲ درگزر فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :104 پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں ، اور یہاں ان کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو ۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا ، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا ۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو ، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :105 اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ ظلم کے مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے ، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو ، عفو و درگزر کرنے والا ہے ، اس لیے تم کو بھی ، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو ، عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے ۔ اہل ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم ، عالی ظرف اور متحمل ہوں ۔ بدلہ لینے کا حق انہیں ضرور حاصل ہے ، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے ۔