Surah

Information

Surah # 22 | Verses: 78 | Ruku: 10 | Sajdah: 2 | Chronological # 103 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 52-55, revealed between Makkah and Madina
لِّـكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا هُمۡ نَاسِكُوۡهُ‌ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِى الۡاَمۡرِ‌ وَادۡعُ اِلٰى رَبِّكَ‌ ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿67﴾
ہر امت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے ، جسے وہ بجا لانے والے ہیں پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہئیے آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیے ۔ یقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں ۔
لكل امة جعلنا منسكا هم ناسكوه فلا ينازعنك في الامر و ادع الى ربك انك لعلى هدى مستقيم
For every religion We have appointed rites which they perform. So, [O Muhammad], let the disbelievers not contend with you over the matter but invite them to your Lord. Indeed, you are upon straight guidance.
Her ummat kay liye hum ney ibadat ka aik tareeqa muqarrar ker diya hai jissay woh baja laney walay hain pus enhen iss amar mein aap say jhagra na kerna chahiye aap apnay perwerdigar ki taraf logon ko buliye. Yaqeenan aap theek hidayat per hi hain.
ہم نے ہر امت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے ، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں ۔ ( ٣٠ ) لہذا ( اے پیغمبر ) لوگوں کو تم سے اس معاملے میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور تم اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیتے رہو ۔ تم یقینا سیدھے راستے پر ہو ۔
ہر امت کے لیے ( ف۱۷۰ ) ہم نے عبادت کے قاعدے بنادیے کہ وہ ان پر چلے ( ف۱۷۱ ) تو ہرگز وہ تم سے اس معاملہ میں جھگڑا نہ کریں ( ف۱۷۲ ) اور اپنے رب کی طرف بلاؤ ( ف۱۷۳ ) بیشک تم سیدھی راہ پر ہو ،
ہر امت 115 کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت 116 مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے ، پس اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں ۔ 117 تم اپنے رب کی طرف دعوت دو ، یقینا تم سیدھے راستے پر ہو ۔ 118
ہم نے ہر ایک امت کے لئے ( احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی ) ایک راہ مقرر کر دی ہے ، انہیں اسی پر چلنا ہے ، سو یہ لوگ آپ سے ہرگز ( اﷲ کے ) حکم میں جھگڑا نہ کریں ، اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں ۔ بیشک آپ ہی سیدھی ( راہِ ) ہدایت پر ہیں
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :115 یعنی ہر نبی کی امت ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :116 یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے ۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ قربانی کا قاعدہ کیا گیا تھا ، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں اس کے وسیع معنی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا ۔ لیکن یہاں اسے محض قربانی کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر پرستش کے بجائے بندگی کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا ۔ اس طرح منسک ( طریق بندگی ) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں ، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہوگا جو سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً ، ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ( آیت 48 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :117 یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک منسک لائے تھے ، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو ۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے ۔ سورہ جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ( آیت 18 ) پھر ( انبیاء بنی اسرائیل کے بعد ) اے محمد ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت ( طریقے ) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ ( مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ 20 ) سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :118 یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں ۔
مناسک کے معنی اصل میں عربی زبان میں منسک کا لفظی ترجمہ وہ جگہ ہے ، جہاں انسان جانے آنے کی عادت ڈال لے ۔ احکام حج کی بجاآوری کو اس لئے مناسک کہا جاتا ہے کہ لوگ بار بار وہاں جاتے ہیں اور ٹھیرتے ہیں ۔ منقول ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ہر امت کے پیغمبر کے لئے ہم نے شریعت مقرر کی ہے ، اس امر میں لوگ نہ لڑے ، سے مراد یہ مشرک لوگ ہیں ۔ اور اگر مراد ہر امت کے بطور قدرت کے ان کے افعال کا تقرر کرنا ہے ۔ جیسے سورۃ بقرہ میں فرمان ہے کہ ہر ایک لئے ایک سمت ہے جدھر وہ متوجہ ہوتا ہے یہاں بھی ہے کہ وہ اس کے بجالانے والے ہیں تو ضمیر کا اعادہ بھی خود ان پر ہی ہے یعنی یہ اللہ کی قدرت اور ارادے سے کررہے ہیں ان کے جھگڑنے سے تو بددل نہ ہو اور حق سے نہ ہٹ ۔ اپنے رب کی طرف بلاتا رہ اور اپنی ہدایت واستقامت پر مکمل یقین رکھ ۔ یہی راستہ حق سے ملانے والا ہے ، کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے ۔ جیسے فرمایا ہے ( وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 87؀ۚ ) 28- القصص:87 ) خبردار کہیں تجھے اللہ کی آیتوں کے تیرے پاس پہنچ جانے پر بھی ان سے روک نہ دیں ، اپنے رب کے راستے کی دعوت عام برابر دیتا رہ ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حق قبول کرنے سے جائے تو اس سے کنارہ اختیار کیجئے اور کہہ دیجئے اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے ۔ جیسے کئی جگہ اسی مضمون کو دہرایا ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو ان سے کہہ دے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے بری ہو میں تمہارے کرتوت سے بیزار ہوں ۔ پس یہاں بھی ان کے کان کھول دیئے کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے وہ تمہاری ادنیٰ سی ادنیٰ حرکت کو بھی جانتا ہے اور وہی ہے تم میں کافی شاہد ہے قیامت کے دن ہم تم میں فیصلہ اللہ خود کردے گا اور اس وقت سارے اختلافات مٹ جائیں گے جیسے فرمان ہے تو اسی کی دعوت دیتا رہ اور ہمارے حکم پر ثابت قدم رہ اور کسی کی خواہش کے پیچھے نہ لگ اور صاف اعلان کردے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب پر میرا ایمان ہے ۔