Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
فَقَالَ الۡمَلَؤُا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِهٖ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ ۙ يُرِيۡدُ اَنۡ يَّـتَفَضَّلَ عَلَيۡكُمۡ ؕ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ لَاَنۡزَلَ مَلٰٓٮِٕكَةً  ۖۚ مَّا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡۤ اٰبَآٮِٕنَا الۡاَوَّلِيۡنَ‌ ۚ‏ ﴿24﴾
اس کی قوم کے کافر سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم جیسا ہی انسان ہے ، یہ تم پر فضیلت اور بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اگر اللہ ہی کو منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو اتارتا ہم نے تو اسے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانے میں سنا ہی نہیں ۔
فقال الملؤا الذين كفروا من قومه ما هذا الا بشر مثلكم يريد ان يتفضل عليكم و لو شاء الله لانزل ملىكة ما سمعنا بهذا في اباىنا الاولين
But the eminent among those who disbelieved from his people said, "This is not but a man like yourselves who wishes to take precedence over you; and if Allah had willed [to send a messenger], He would have sent down angels. We have not heard of this among our forefathers.
Uss ki qom kay kafir sardaron ney saaf keh diya kay yeh to tum jesa hi insan hai yeh tum per fazeelat aur baraee hasil kerna chahata hai. Agar Allah hi ko manzoor hota to kissi farishtay ko utarta hum ney to issay apnay aglay baap dadon kay zamaney mein suna hi nahi.
اس پر ان کی قوم کے کافر سرداروں نے ( ایک دوسرے سے ) کہا : اس شخص کی اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں کہ یہ تمہی جیسا ایک انسان ہے جو تم پر اپنی برتری جمانا چاہتا ہے ، اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کردیتا ۔ یہ بات تو ہم نے اپنے پچھلے باپ دادوں میں کبھی نہیں سنی ۔
تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا بولے ( ف۳۰ ) یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی چاہتا ہے کہ تمہارا بڑا بنے ( ف۳۱ ) اور اللہ چاہتا ( ف۳۲ ) تو فرشتے اتارتا ہم نے تو یہ اگلے باپ داداؤں میں نہ سنا ( ف۳۳ )
اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا ۔ 26 اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے ۔ 27 اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا ۔ 27 الف یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں ﴿کہ بشر رسول بن کر آئے﴾ ۔ کچھ نہیں ،
تو ان کی قوم کے سردار ( اور وڈیرے ) جو کفر کر رہے تھے کہنے لگے: یہ شخص محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے ( اس کے سوا کچھ نہیں ) ، یہ تم پر ( اپنی ) فضیلت و برتری قائم کرنا چاہتا ہے ، اور اگر اللہ ( ہدایت کے لئے کسی پیغمبر کو بھیجنا ) چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا ، ہم نے تو یہ بات ( کہ ہمارے جیسا ہی ایک شخص ہمارا رسول بنا دیا جائے ) اپنے اگلے آباء و اجداد میں ( کبھی ) نہیں سنی
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :26 یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصور کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے ۔ ( تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہوں الاعراف ، آیات 63 ۔ 69 ۔ یونس ، آیت 2 ۔ ہود ، 27 ۔ 31 ۔ یوسف 109 ۔ الرعد 38 ۔ ابراہیم 10 ۔ 11 ، النحل 43 ۔ بنی اسرائیل ، 94 ۔ 95 ۔ الکہف 110 ۔ الانبیاء 3 ۔ 34 ۔ المومنون 33 ۔ 34 ۔ 47 ۔ الفرقان 7 ۔ 20 ۔ الشعراء 154 ۔ 186 ۔ یٰسین 15 ۔ حٰم السجدہ ، 6 ۔ مع حواشی ) ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27 یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اٹھے اس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ، بس اقتدار کا بھوکا ہے ۔ یہ الزام فرعون نے حضرت موسیٰ اور ہارون پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے ، تکون لکما الکبریاء فی الارض ( یونس آیت 78 ) ۔ یہی حضرت عیسیٰ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سرداران قریش کو تھا ، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو اپوزیشن چھوڑ کر حزب اقتدار میں شامل ہو جاؤ ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں ان کے لیے یہ تصور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاح انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے ۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اور اصلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں ، اس لیے مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ انکا اپنا ہم جنس ہی ہو گا ۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف اقتدار کی بھوک کا یہ الزام ہمیشہ بر سر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں ۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایان نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے ، اس کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں ، البتہ نہایت قابل ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ غذا پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی بھوک محسوس کر رہے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ 36 ) ۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظام زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھے گا اور اس کے مقابلے میں اصلاحی نظریہ و نظام پیش کرے گا ، اس کے لیے بہرحال یہ بات ناگزیر ہو گی کہ اصلاح کی راہ میں جو طاقتیں بھی سدراہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور ان طاقتوں کو برسر اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں ۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی ، اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی ، یا اس کے حامیوں اور پیروؤں کے ہاتھ ان پر قابض ہوں گے ۔ آخر انبیاء اور مصلحین عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا ، اور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا ؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا ، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کرلی ؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنان حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے ۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بلارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے ، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے ۔ ورنہ دونوں کی نیت دونوں کے طریق کار اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحب عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :27 ( الف ) یہ اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قوم نوح اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ رب العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع فرمان ہیں ۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکار خدا ، وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتی تھی ۔