Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ كَالَّذِىۡ يُنۡفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَيۡهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلۡدًا ‌ؕ لَا يَقۡدِرُوۡنَ عَلٰى شَىۡءٍ مِّمَّا كَسَبُوۡا ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿264﴾
اے ایمان والو !اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو !جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر ، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالٰی کافروں کی قوم کو ( سیدھی ) راہ نہیں دکھاتا ۔
يايها الذين امنوا لا تبطلوا صدقتكم بالمن و الاذى كالذي ينفق ماله راء الناس و لا يؤمن بالله و اليوم الاخر فمثله كمثل صفوان عليه تراب فاصابه وابل فتركه صلدا لا يقدرون على شيء مما كسبوا و الله لا يهدي القوم الكفرين
O you who have believed, do not invalidate your charities with reminders or injury as does one who spends his wealth [only] to be seen by the people and does not believe in Allah and the Last Day. His example is like that of a [large] smooth stone upon which is dust and is hit by a downpour that leaves it bare. They are unable [to keep] anything of what they have earned. And Allah does not guide the disbelieving people.
Aey eman walon apni kheyraat ko ehsan jata ker aur ezza phoncha ker barbad na kero! Jiss tarah woh shaks apna maal logon kay dikhaway kay liye kharach keray aur na Allah Taalaa per eman rakhay na qayamat per uss ki misal uss saaf pathar ki tarah hai jiss per thori si mitti ho phir uss per zor daar meenh barsay aur woh issay bilkul saaf aur sakht chor dey inn riya kaaron ko apni kamaee mein say kuch cheez haath nahi lagti aur Allah Taalaa kafiron ki qom ko ( seedhi ) raah nahi dikhata.
اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ چنانچہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو ، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس ( مٹی کو بہا کر چٹان ) کو ( دوبارہ ) چکنی بنا چھوڑے ۔ ( ١٨٠ ) ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی ، اور اللہ ( ایسے ) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا ۔
اے ایمان والوں اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر ( ف۵۵٤ ) اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے ، تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا ( ف۵۵۵ ) اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے ، اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا ،
اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو ، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، نہ آخرت 303 پر ۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک چٹان تھی ، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی ۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا ، تو ساری مٹی بہہ گئ اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ۔ 304 ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں ، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا ، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے 305 ۔
اے ایمان والو! اپنے صدقات ( بعد ازاں ) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر ، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے ( پھر وہی ) سخت اور صاف ( پتھر ) کر کے ہی چھوڑ دے ، سو اپنی کمائی میں سے ان ( ریاکاروں ) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :303 اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا ۔ اس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے ، اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہوگا اور اجر عطا کیے جائیں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :304 اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے ۔ چٹان سے مراد اس نیت اور اس جذبے کی خرابی ہے ، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے ۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے ، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے ۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشونما پائے ۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اوپر ہی اوپر ہو ، اور اس اوپری تہہ کے نیچے نری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو ، تو بارش مفید ہونے کے بجائے الٹی مضر ہوگی ۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشونما دینے کی قوت رکھتی ہے ، مگر اس کے نافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے ۔ نیت نیک نہ ہو تو ابر کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاع مال ہے اور کچھ نہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :305 یہاں” کافر“ لفظ ناشکرے اور منکر نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمت کو اس کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کرنے کے بجائے خلق کی خوشنودی کے لیے صرف کرتا ہے ، یا اگر خدا کی راہ میں کچھ مال دیتا بھی ہے ، تو اس کے ساتھ اذیت بھی دیتا ہے ، وہ دراصل ناشکرا اور اپنے خدا کا احسان فراموش ہے ۔ اور جب کہ وہ خود ہی خدا کی رضا کا طالب نہیں ہے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ اسے خواہ مخواہ اپنی رضا کا راستہ دکھائے ۔