Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَالَّذِيۡنَ يُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوۡبُهُمۡ وَجِلَةٌ اَنَّهُمۡ اِلٰى رَبِّهِمۡ رٰجِعُوۡنَ ۙ‏ ﴿60﴾
اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
و الذين يؤتون ما اتوا و قلوبهم وجلة انهم الى ربهم رجعون
And they who give what they give while their hearts are fearful because they will be returning to their Lord -
Aur jo log detay hain jo kuch detay hain aur unn kay dil kapkapatay hain kay woh apnay rab ki taraf lotney walay hain.
اور وہ جو عمل بھی کرتے ہیں ، اسے کرتے وقت ان کے دل اس بات سے سہمے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کے پاس واپس جانا ہے ۔ ( ٢٢ )
اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ دیں ( ف۹٤ ) اور ان کے دل ڈر رہے ہیں یوں کہ ان کو اپنے رب کی طرف پھرنا ہے ، ( ف۹۵ )
اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ۔ 54
اور جو لوگ ( اللہ کی راہ میں اتنا کچھ ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور ( اس کے باوجود ) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں ( کہیں یہ نامقبول نہ ہو جائے )
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :54 عربی زبان میں دینے ( ایتاء ) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے ، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے کے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابائۃ ۔ پس اس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہ خدا میں مال دیتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے ۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں ، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں ، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں ، ان پر وہ پھولتے نہیں ہیں ، غرور تقویٰ اور پندار خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو ، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو ، ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو ، یہی مطلب ہے جس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے ؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ اسے : یَأتُوْنَ مَا اَتَوْا کے معنی میں لے رہی تھیں ، یعنی کرتے ہیں جو کچھ بھی کرتے ہیں ۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یا بنت الصدیق و لٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق وھو یخاف اللہ عزو جلّ ، نہیں ، اے صدیق کی بیٹی اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزے رکھتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزوجل سے ڈرتا رہتا ہے ۔ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت : یَأتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْتُوْنَ ہے ، اور یہ یُؤْتُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بچانے کے وسیع معنی میں ہے ۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کس قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے ۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے ۔