Surah

Information

Surah # 23 | Verses: 118 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 74 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD)
وَلَا نُـكَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا‌ وَلَدَيۡنَا كِتٰبٌ يَّـنۡطِقُ بِالۡحَـقِّ‌ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿62﴾
ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے ، ان کے اوپر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ۔
و لا نكلف نفسا الا وسعها و لدينا كتب ينطق بالحق و هم لا يظلمون
And We charge no soul except [with that within] its capacity, and with Us is a record which speaks with truth; and they will not be wronged.
Hum kissi nafs ko uss ki taqat say ziyada takleef nahi detay aur humaray pass aisi kitab hai jo haq kay sath bolti hai inn kay upper kuch bhi zulm na kiya jayega.
اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام کی ذمہ داری نہیں دیتے ، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو ( سب کا حال ) ٹھیک ٹھیک بول دے گی ، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا ۔
اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے کہ حق بولتی ہے ( ف۹۷ ) اور ان پر ظلم نہ ہوگا ، ( ف۹۸ )
ہم کسی شخص کو 54 الف اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ، 55 اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے ، جو ﴿ہر ایک کا حال ﴾ ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے ، 56 اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا ۔ 57
اور ہم کسی جان کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی استعداد کے مطابق اور ہمارے پاس نوشتۂ ( اَعمال موجود ) ہے جو سچ سچ کہہ دے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :55 اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں ۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت ، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے ۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں ۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے ۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو ، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں ۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو ، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا ۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :56 کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اس کی ایک ایک بات ، ایک ایک حرکت ، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے ۔ اسی کے متعلق سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ : وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَالِ ھٰذا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً ۔ O ، اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا ، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو ۔ جو جو کچھ انہوں نے کہا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔ ( آیت 49 ) ۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :57 یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ درحقیقت قصور وار نہ ہو ، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو ، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا ۔
آسان شریعت اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے ۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسانی طاقت سے خارج ہوں ۔ پھر قیامت کے دن وہ اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے ۔ یہ نامہ اعمال صحیح صحیح طور پر ان کا ایک ایک عمل بتادے گا ۔ کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا کوئی نیکی کم نہ ہوگی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کردی جائیں گی ۔ لیکن مشرکوں کے دل قرآن سے بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا بھی ان کی اور بد اعمالیاں بھی ہیں جیسے شرک وغیرہ جسے یہ دھڑلے سے کررہے ہیں ۔ تاکہ ان کی برائیاں انہیں جہنم سے دور نہ رہنے دیں ۔ چنانچہ وہ حدیث گزر چکی جس میں فرمان ہے کہ انسان نیکی کے کام کرتے کرتے جنت سے صرف ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے جو اس پر تقدیر کا لکھا غالب آجاتا اور بداعمالیاں شروع کردیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہنم واصل ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے آسودہ حال دولت مند لوگوں پر عذاب الٰہی آپڑتا ہے تو اب وہ فریاد کرنے لگتے ہیں ۔ سورۃ مزمل میں فرمان ہے کہ مجھے اور ان مالدار جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے انہیں کچھ مہلت اور دیجئے ہمارے پاس بیڑیاں بھی ہیں اور جہنم بھی ہے اور گلے میں اٹکنے والا کھانا ہے اور دردناک سزا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ Ǽ۝ ) 38-ص:3 ) یعنی ہم نے ان سے پہلے اور بھی بہت سی بستیوں کو تباہ کردیا اس وقت انہوں نے واویلا شروع کی جب کہ وہ محض بےسود تھی ۔ یہاں فرماتا ہے آج تم کیوں شور مچا رہے ہو؟ کیوں فریاد کررہے ہو؟ کوئی بھی تمہیں آج کام نہیں آسکتا تم پر عذاب الٰہی آپڑے اب چیخنا چلانا سب بےسود ہے ۔ کون ہے ؟ جو میرے عذابوں کے مقالبے میں تمہاری مدد کرسکے؟ پھر ان کا ایک بڑا گناہ بیان ہو رہا ہے کہ یہ میری آیتوں کے منکر تھے انہیں سنتے تھے اور ٹال جاتے تھے ، بلائے جاتے تھے لیکن انکار کردیتے تھے توحید کا انکار کرتے تھے شرک پر عقیدہ رکھتے تھے حک تو بلندوبرتر اللہ ہی کا چلتا ہے مستکبرین دال ہے ان کے حق سے ہٹنے اور حق کا انکار کرنے سے آیت ہے کہ یہ اس وقت تکبر کرتے تھے اور حق اور اہل حق کو حقیر سمجھتے تھے ۔ اس معنی کی رو سے بہ کے ضمیر کا مرجع یا تو حرم ہے یعنی مکہ کہ یہ اس میں بیہودہ بکواس بکتے تھے ۔ یا قرآن ہے جسے یہ مذاق میں اڑاتے تھے کبھی شاعری کہتے تھے کبھی کہانت وغیرہ ۔ یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ راتوں کو بیکار بیٹھے ہوئے اپنی گپ شب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی شاعر کہتے ، کبھی کاہن کہتے ، کبھی جادوگر کہتے ، کبھی جھوٹا کہتے ، کبھی مجنون بتلاتے ۔ حالانکہ حرم اللہ کا گھر ہے قرآن اللہ کا کلام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جہنیں اللہ نے اپنی مدد پہنچائی اور مکے پر قابض کیا ۔ ان مشرکین کو وہاں سے ذلیل وپست کرکے نکالا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بیت اللہ کی وجہ سے فخر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں حالانکہ یہ خیال محض وہم تھا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مشرکین قریش بیت اللہ پر فخر کرتے تھے اپنے آپ کو اس کا مہتمم اور متولی بتلاتے تھے حالانکہ نہ اسے آباد کرتے تھے نہ اس کا صحیح ادب کرتے تھے امام ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں پر بہت کچھ لکھا ہے حاصل سب کا یہی ہے ۔